Maktaba Wahhabi

412 - 2029
ران ستر ہے یا نہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ران سَتر ہے یا نہیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!  مشکوٰۃ باب النظر الی المخطوبتہ صفحہ 261 میں ہے الفخذ عورۃ یعنی ران پردہ  ہے  یعنی اس کو ڈھکنا چاہیے۔ نیل الاوطار جلد اوّل باب بین العورۃ وحدھا میں مسند حارث بن ابی اسامہ کے حوالہ سے ابی سعیدؓ سے مرفوع روایت ہے عورۃ الرجل مابین سرتہ الی رکبتیہ یعنی ناف اور گھٹنوں کا درمیانی حصہ ستر ہے ایسا ہی منتخب کنزالعمال بحوالہ ترمذی ذکر ہے او رمشکوٰۃ میں ابوداؤد اور منتقی میں مؤطا اور مسند احمد کا ذکر ہے۔ منتخب کنز الاعمال جلد3 صفحہ 141 میں ہے «عن ابی العلاء مولی الا سلمیۃ قال رأیت علیا یتزرفو ق السرة ابن سعد (ہق)» یعنی حضرت علی ناف کے اوپر تہ بند باندھتے تھے۔ لیکن بخاری صفحہ 53 میں ہے۔ «قال انس حسرالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن فخدہ» یعنی رسول اللہ نے اپنی ران ننگی کی۔ اس کے آگے ذکر ہے۔ «حسرالازار عن فخذہ حتی انظر الی بیاض فخذ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم» یعنی آپ نے ران سے کپڑا ہٹایا یہاں تک کہ میں آپ کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا۔ ان احادیث میں بظاہر مخالفت ہے بعض میں ہے کہ ران ستر ہے اور بعض میں ہے کہ رسول اللہ نے ران ننگے ہونے کی پرواہ نہیں کی۔ امام بخاری کا فیصلہ: امام بخاری فرماتے ہیں: «حدیث انس اسند و حدیث جو ھدا حوط حتی نخرج من اختلافھم» بخاری صفحہ 53 یعنی انسؓ کی حدیث جس میں ران سےکپڑا ہٹانے کا ذکر ہے جرہد کی حدیث سے جس میں ران کو ستر کہا ہے سند کی رو سے قوی ہے لیکن جرہد کی حدیث پر عمل کرنے میں احتیاط ہے۔ تاکہ اختلاف میں نہ پڑیں۔ محدث روپڑی کا فیصلہ: امام بخاری نے جو کچھ فرمایا ہے ۔ بالکل ٹھیک ہے بے شک عمل احتیاط جرہد کی حدیث میں ہے۔ لیکن ان دونوں حدیثوں میں موافقت کرنا چاہیں تو موافقت بھی ہوسکتی ہے وہ یہ کہ  گھٹنے کے قریب سے کھول لے تو کوئی حرج نہیں۔ شرمگاہ کے زیادہ قریب سے نہ کھولے۔ کسانوں کوبھی ا س سے زیادہ اجازت نہیں۔ ہاں نماز میں ناف سے گھٹنوں تک ڈھکنا ضروری ہے بلکہ کندھے ڈھکنے بھی ضروری ہیں۔ جیسا کہ بلوغ المرام میں حدیث جابرؓ اور حدیث ابی ہریرہؓ سے ظاہر ہے کہ یہ حکم مرد کے لیے ہے عورت کو سر سے پاؤں تک ڈھکنا چاہیے۔ وباللہ التوفیق فتاویٰ اہلحدیث ستر کا بیان، ج1ص292 
Flag Counter