آئندہ نہیں آؤں گا۔ میں نے رحم کھاتے ہوئے اسے پھرچھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ’’اے ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے اپنی شدید ضرورت کا شکوہ کیا اور عیال داری کا واسطہ دیا ، مجھے رحم آگیا ، لہٰذا میں نے اسے پھرچھوڑ دیا۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’خبردار رہنا ، اس نے تجھ سے جھوٹ بولا ہے وہ پھر آئے گا۔‘‘ چنانچہ میں تیسری بار اس کی گھات میں بیٹھ گیا ، وہ آیا اور پھر غلہ کے لپ بھرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیااور کہا ’’یہ تیسری بارہے اب تو میں تمہیں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر جاؤں گا۔ ہربار تو وعدہ کرتا ہے ، نہیں آؤں گا ،لیکن پھر آجاتا ہے۔ ‘‘ اس نے کہا ’’اچھا میں تمہیں ایسے کلمات بتاتا ہوں جن سے اللہ تجھے فائدہ دے گا، لیکن اس کے بدلے مجھے چھوڑ دے۔ ‘‘ (میں نے پوچھا) ’’وہ کلمات کیا ہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’جب تو (رات کو سونے کے لئے ) اپنے بستر پر آئے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر، ایک فرشتہ ساری رات تیری حفاظت کرے گا اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ ‘‘ (یہ سن کرمیں نے)اسے پھر چھوڑ دیا۔‘‘ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ’’ابوہریرہ ! کل رات تیرے قیدی نے کیا کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے کہا میں تجھے ایسے کلمات سکھاتا ہوں جن سے اللہ تجھے نفع پہنچائے گا ، چنانچہ( اس کے بتانے پر)میں نے اسے چھوڑ دیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ’’وہ کلمات کیا ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ اس نے بتایا کہ جب تو (رات کو ) اپنے بستر پر آئے تو اول سے آخر تک آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ رات بھرتیری حفاظت کرے گا اور شیطان بھی تمہارے قریب نہیں آئے گا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چونکہ خیراور بھلائی کے بہت زیادہ حریص ہوتے تھے (اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کچھ نہیں کہا بلکہ فرمایا ) ’’ہاں ! اس نے تجھ سے سچی بات کہی ہے لیکن وہ خود جھوٹا ہے، تجھے معلوم ہے تین راتوں سے تیرا واسطہ کس سے رہا ہے؟‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’نہیں !‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’وہ شیطان تھا۔‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ 226: آیۃ الکرسی شیاطین کے شرور وفتن سے محفوظ رکھنے والی آیت ہے۔ عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اللّٰه عنہ اَنَّہٗ کَانَ لَہٗ جَرِیْنُ تَمْرٍ فَکَانَ یَجِدُہٗ یَنْقُصُ ، فَحَرَسَہٗ لَیْلَۃً ، فَاِذَا بِمِثْلِ الْغُلاَمِ الْمُحْتَلِمِ ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَرَدَّ عَلَیْہِ السَّلاَمَ فَقَالَ : اَجِنِّیٌ اَمْ اِنْسِیٌّ؟ فَقَالَ : بَلْ جِنِیْ ، فَقَالَ اَرَنِیْ یَدَکَ ، فَأَرَاہُ فَاِذَا یَدُ کَلْبٍ ، وَشَعْرُ کَلْبٍ ، فَقَالَ : ہٰکَذَا خَلْقُ الْجِنِّ ؟ لَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنُّ اَنَّہٗ لَیْسَ فِیْہِمْ رَجُلٌ اَشَدُّ مِنِّیْ ، قَالَ : مَا جَائَ بِکَ ؟ قَالَ نُبِّئْنَا اَنَّکَ تُحِبُّ |