Maktaba Wahhabi

1083 - 2029
ہم زمینداروں کو تین چار ماہ کے اُدھار پر کھاد دیتے ہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ گزارش ہے کہ اپنے کاروبار کے متعلق مسئلہ در پیش ہے۔ ہم زمینداروں کو تین چار ماہ کے اُدھار پر کھاد دیتے ہیں اور اُدھار دینے کی وجہ سے ہم مارکیٹ کی نسبت ۱۰۰ روپے فی بوری پیسے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ بعض اوقات کھاد لینے والوں کے پاس پیسوں کی کمی ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ مجبوراً مہنگی کھاد لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم ان پیسوں کو نقد لین دین میں استعمال کریں تو زیادہ منافع کے مواقع ہیں ۔ ہم اس نیت سے اُن لوگوں کو اُدھار مہنگی کھاد دیتے ہیں ۔ اب گزارش ہے کہ یہ معاملہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سود کے زمرے میں تو نہیں آتا؟ تفصیلاً جواب فرمادیں۔        (اللہ دتہ رحمانی ،۔محمد عثمان رحمانی)  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! قسطوں پر بیع کی دو صورتیں ہیں: (۱)… چیز کی جتنی قیمت نقد ہے اتنی ہی یا اس سے کم قیمت اُدھار قسطوں میں وصول کر لی جائے۔ (۲)… چیز کی جتنی قیمت نقد ہے اُدھار قسطوں میں اس سے زیادہ قیمت وصول کی جائے۔ پہلی صورت شرعاً جائز و درست ہے جبکہ دوسری صورت سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ،           نادرست اور حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  [وَحَرَّمَ الرِّبٰوا} [البقرۃ:۲۸۵] [’’اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘] ابو داؤد وغیرہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))1 [’’جس کسی نے ایک چیز کی دو قیمتیں مقرر کیں وہ یا تو کم قیمت لے لے یا پھر وہ سود ہو گا۔‘‘ ] 1 ابو داؤد/کتاب البیوع۔ باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ   قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل جلد 02 ص 552
Flag Counter