Maktaba Wahhabi

557 - 2029
اگر مشرکین کی کمائی سے کھانا درست ہے ...الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ میں نے تصوف کی ایک کتاب میں لکھا ہوا دیکھا۔ کہ ایک عورت متقی پرہیز گار چاندنی رات میں چرخہ کات رہی تھی۔ اور وہ  ہمیشہ اپنی روزی اپنی محنت سے مہیا کرتی تھی۔ اسی اثناء میں ایک مشرکین کی بارات پاس سے گزری تو ان کی مشعل کی روشنی میں اس سے کچھ سوت کاتا گیا۔ صبح اس کی صفائی قلب میں فرق آگیا۔ نور جاتا رہا ایسا کچھ مضمون تھا۔ کیا یہ درست ہے؟ اسی طرح سے غنیۃ الطالبین میں کہتے ہیں۔ کہ حضرت پیران پیرسے منقول ہے۔ کہ پیر کو لازم نہیں کہ مرید کے گھر کا کھانا کھائے۔ کیونکہ ان کی کمائی مشتبہ ہوتی ہے۔ یہ قول بھی موئید سابقہ مضمون کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ  جناب رسول اللہ ﷺ نے کافروں کی دعوت قبول فرمائی جن کی کمائی بھی مشتبہ تھی۔ بوجہ سودوغیرہ کے تو  جبکہ اس کے کھانے سے جناب نبی کریمﷺ پر مخالفانہ کچھ اثر نہ ہوا۔ غیر نبی پر  کیوں ہوگا۔ اگر مشرکین کی کمائی سے کھانا درست ہے۔ توتقویٰ میں کیوں فرق نہیں آتا۔ (قاسم علی چوکی  بھنڈا)  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! چرخہ کا تصور تو میں نے نہیں دیکھا۔ اگر ہے تو غلو میں داخل ہے۔ جس کی بابت قرآن مجید میں ارشاد ہے۔  لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُمْ ۔ حدیث شریف میں ایسے امور کی بابت ایک عام ہدایت آئی ہے۔ لن شاد الدین احد الاغلبہ (دین میں کوئی شخص زور سے قابو کرنا چاہے تو خود یہ شخص کمزور ہوجائےگا۔ )ایسے امور میں  تشدد کرنا جواز قسم مباح ہوغلہ ہے۔ ہاں حضرت پیر صاحب کا فرمان ایک حد تک صحیح ہے۔  مرید چونکہ باکمال نہیں ہوتا۔ ا س کی کمائی مشتبہ ہوگی یا ہوسکتی ہے۔  کفار گو کفار ہیں۔  مگر ہر کافر کی کمائی حرام نہیں۔  غنیہ کی اگر مثال ہے تو وہ واقعہ ہے۔  جس میں آپﷺ نے راستے میں وہ کھجور پڑی ہوئی دیکھی فرمایا اگر یہ خیال نہ ہوکہ صدقہ کی ہوگی تو میں کھالیتا۔ اس قسم کے واقعات  کی نسبت کہا جاتا ہے۔ التقویٰ فوق الفتویٰ شرع شریف میں اس قسم کے واقعات ملتے ہیں۔  گر وہ تقویٰ کے  درجے  پر ہوتے ہیں۔ احکام کے درجے پر نہیں ہوتے۔ مطلب یہ کہ کوئی شخص اس طرھ کھجور پائے اورکھالے تو ا س پر گناہ نہیں۔ اس طرح مرید کے گھر کا کھانا جس کی حرمت معلوم نہ ہو تو کھالے تو کوئی حرج نہیں۔  حَتَّیٰ یُبَیِّنَ لَہُم مَّا یَتَّقُونَ ۔ (24 جمادی الاول۔ 37ہجری)   فتاویٰ  ثنائیہ جلد 2 ص 72
Flag Counter