Maktaba Wahhabi

1101 - 2029
ایک وقت میں دو بیع کرنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ دربارہ خرید وفروخت یعنی ایک وقت میں دو بیع کرنا نقد پر بیشی کے ساتھ اور ادھار پرکمی کے ساتھ دینا اس طرح کی خرید وفروخت درست ہے یا نہیں اس کے جواب میں آپ کے ہاں سے فتویٰ آیا ۔ کہ نقد پر کم قیمت لینا۔ اور ادھار پر زیادہ قیمت لینادرست ہے۔ یہ مسئلہ ترمذی اور نیل الاوطار میں ملتا ہے۔ اور اسی طرح کا فتویٰ اخبار اہلحدیث قبل رمضان 1333ہجری میں دیکھا گیا۔ مگر اس کے ثبوت میں کچھ شک پڑتاہے۔ کیونکہ ترمذی میں کوئی دلیل کافی نہ پائی گئی اورنیل الاوطار یہاں موجود نہیں۔ مگر برعکس اس کے ملتا ہے۔ یعنی تلخیص الصحاح باب لبیوع جلد اول ص 143 مترجم مطبوعہ مطبع صدیقی لاہو کہ ایک وقت میں دو بیع کرنا درست نہیں ہے۔ اور کیونکہ ادھاار پر زیادہ قیمت لینا ربا ہوگا۔ اس واسطے مکرر عرض ہے۔ کہ اس مسئلہ میں موافق قرآن وحدیث کے جواب ملنا چاہیے کسی کی رائے اور اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔  (عبدالحمید اہلحدیث از دھورہ ٹانڈہ)  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اس حدیث کی تشریح میں اقوال مختلف ہیں۔ جس صاحب کو جو قول پسند ہوتا ہے۔ اس پر وہ نتائج مرتب کردیتا ہے۔ نیل الاوطارمیں ایک قول یوں بھی مرقوم ہے۔ کہ اگرکوئی یہ کہے کہ نقد پر سو روپیہ اور ادھار پردو سو روپیہ لوں گا خریدار کہے میں نے نقد کی صورت میں یا ادھار کی صورت میں منظور کی تو جائز ہے۔  (جلد 5 ص 12) ترمذی میں بھی مرقوم ہے کہ صورت مرقومہ میں خریداار جب ایک صورت کو اختیار کرلے تو جائز ہے۔  (باب ا لنھی عن بیعتین فی بیعۃ)  غرض صورت مرقومہ کے منع پرکوئی آیت یا حدیث صاف دلالت نہیں کرتی اس لئے جائز معلوم ہوتا ہے۔  (اہلحدیث 25 فروری 1916ء) تشریح وقد فسر بعض اہل العلم قالوا بیعتین فی بیعتہ ان یقول ابیعک ہذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیة بعشرین ولا یفادقہ علی احد ا لبیعین یعنی بعض اہل علم نے حدیث نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین فی بیعتہ  کی تفسیر یوں کی ہے۔ کہ مثلا ایک شخص کہے کہ یہ کپڑا میں نے تمہارے ہاتھوں نقد دس روپے پر اور ادھار بیس روپے پر فروخت کیا اور بائع اور مشتری جدائی سے پہلے کسی ایک بیع کا فیصلہ نہ کرسکیں۔ یہ بیع اکثر اہل علم کے نزدیک فاسد ہے۔ فازا فارقہ علی احدہما فلا باس ازا کانت العقدة علی واحد منہما یعنی اگر جدائی سے پہلے ایک بیع کا فیصلہ ہوگیا تو کوئی حرج نہیں۔ جبکہ بیع ایک صورت پر منقعد ہوچکی نقد پر متعین ہو یا ادھار پر مذید تفصیلات کےلئے دیکھو تحفہ ا لاحوذی جلد 2 ص 336  (مولف)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 364
Flag Counter