(615) پہچان کے لیے جانوروں اور مویشیوں کو داع لگانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ فقہ میں ایسے دلائل موجود ہیں جن سےمعلوم ہوتاہے کہ جانوروں اور مویشیوں کے چہروں پر داغ لگانا حرام ہے لیکن ہم بادیہ نشین لوگ اپنےجانوروں کو داغ لگانے پر مجبور ہیں تاکہ وہ چراگاہ میں دوسرے لوگوں کے جانوروں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائیں اور پھر اس طرح کے داغ لگے ہوئےجانوروں کا چوروں کےلیےچرانا اور انہیں فروخت کرنا بھی مشکل ہوتاہے ۔ تو کیا ان صورتوں میں جانوروں کو داغ لگانا جائز ہے ؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ہاں سوال میں مذکور ہ غرض کے لیے جانوروں کو داغ لگانا جائزہے بشرطیکہ داغ چہرے پر نہ لگایا جائے کیونکہ امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ علیہم نے اپنی اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے ہاتھ میں داغ لگانے والا آلہ تھا ، جس کے ساتھ آپ صدقہ کے اونٹوں کو داغ لگارہے تھے۔ ((صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب وسم الامام ابل ، حدیث 1502 وصحیح مسلم ، اللباس ،باب جواز وسم الحیوان ، حدیث2119 )) احمد اور ابن ماجہ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بکریوں کے کانوں پر داغ لگارہے تھے ۔ (مسند احمد ، 3؍171 وسنن ابن ماجہ ، اللباس ، باب لبس الصوف ، حدیث 3565) جہاں تک چہرے پر داغ لگانے کاتعلق ہے ، تو یہ جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے (صیح مسلم ، اللباس ، باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ ، حدیث 2116،2117) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص469 |
Book Name | اجتماعی نظام |
Writer | متفرق |
Publisher | متفرق |
Publish Year | متفرق |
Translator | متفرق |
Volume | متفرق |
Introduction | فتاوے متففرق جگہوں سے ، مختلف علما کے، مختلف کتابوں سے نقل کئے گئیے ہیں۔ البتہ جمع و ترتیب محدث ٹیم نے ، تصحیح و تنقیح المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر نے کی ہے |