Maktaba Wahhabi

1436 - 2029
(436) اوور ٹائم کی اجرت السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک کمپنی  اپنے بجٹ کا ایک خطیر  حصہ اس لیے  رکھتی ہے  تاکہ ملازمین کو اوور ٹائم کی اجرت ادا کی جاسکے 'ملازمین بھی دستخط کرکے ہرسال باری باری اوور ٹائم  کی اجرت وصول  کرلیتے ہیں حالانکہ انہوں نے قطعاً اوور ٹائم  نہیں لگایا ہوتا تو کیا اس طرح  یہ مال  وصول  کرنا جائز ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اس کمپنی  کے ملازمین  کو چاہیے کہ  وہ اس  مال کو ناجائز  طور پر  حاصل  نہ کریں بلکہ جو مال بچا ہواسے  خزانہ  میں  جمع کرادیں اور ان لوگوں کو نہ دیں جنہوں نے  کام کیا ہی نہیں  خواہ  وہ آئندہ سال  یا آنے والے سالوں میں بھی اگر زائد از وقت کام نہ کریں تو انہیں یہ مال بالکل  نہ دیں کیونکہ  وہ اس مال کے امین  قرار دیے گئے  ہیں  اور امین کو چاہیے کہ  کہ وہ اس مال کے بارے میں پوری پوری امانت  ودیانت  کا ثبوت  دے' جو اس کے پاس  بطور امانت ہو اور اگر مقررہ وقت  سے زائد  کام کی ضرورت  ہو تو پھر ان کے کام  کے بقدر  جس اجرت کے وہ مستحق   ہوں وہ انہیں ادا کردی جائے اور اگر ملازمین  اسی نظم و نسق  کے مطابق  کام کریں  اور کمپنی  از خود  انہیں کچھ  دینا چاہے' تو اسے وہ  لے سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے فرمایا تھا: (وماجاءک  من ہذا المال  شئی وانت  غیر  مشرف  ولاسائل  فخذوہ ‘ومالا فلا تتبعہ  نفسک )) (صحیح البخاری ‘الزکاة ‘باب من اعطاہ اللہ شیئا من غیر مسالة ____الخ ‘ ح:١٤٧٣ وصحیح مسلم ‘الزکاة ّباب جواز الاخذ بغیر  سؤال  ولا تطلع ‘ ح: ١-٤٥ واللفظ لہ) تمہارے پاس جو مال اس طرح آئے  کہ تم اس کے بارے میں حریص ولالچی نہ ہو  اور نہ تم نےاس کے بارے میں سوال کیا ہو تو اسے لے لو اور جو اس طرح نہ ہو تو اس کا پیچھا نہ کرو۔" ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص336
Flag Counter