Maktaba Wahhabi

1579 - 2029
(126)تنخواہ پر تقریر کرنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ دینی امورمیں قرآن پاک کی تعلیم دیناامامت کراناخطبہ دیناجلسوں میں تقریرکے لیے جاناوغیرہ پراجرت لیناصحیح حدیث کے مطابق ہے یا غلط ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! قرآن کریم وغیرہ تبلیغ دین کے لیے سناکراس پر اجرت لیناجائزنہیں،قرآن کریم فرماتا ہے: ﴿قُل لَّآ أَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرً‌ا﴾ (الشوری:٢٣) البتہ قرآن کریم سکھلانایااس کی اورعلوم دینیہ کی تعلیم دینا اورتدریس کرنا اس پر اجرت لی جاسکتی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ایک آدمی جس کوسانپ نے ڈس لیاتھا اس پر سورہ فاتحہ سےدم کیا اوروہ اچھاہوگیاپھرانہوں نے معاوضہ میں بکریاں لیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاوضہ کو بحال رکھااس کوجائز قراردیااورمزیدیہ فرمایاکہ قرآن پرجوتم لیتے ہووہ زیادہ حق ہے۔ بہرحال جملہ دلائل کو دیکھ کریہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ دین کی تبلیغ کرنی ہے یا قرآن سناکرتبلیغ اسلام وشریعت کرنی ہے تواس پر اجرت نہیں لینی چاہیے البتہ کسی کو قرآن پڑھ کردم کرےیامعلم بن کرمحنت کرے یا بچوں کوقرآن پڑھائے یادینی علوم کی مدارس میں تعلیم دےتویہ تبلیغ کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ محنت ہےجووہ کرتا ہے۔لہذا اس پر معاوضہ درست ہے،ان دونوں میں جو فرق ہے اس کو خوب غوروفکرکرکے سمجھ لیناچاہیے اسی طرح امامت وخطابت کا معاملہ ہے اگرکوئی مسکین وفقیرہے اوروہ اپنا کام یا کوئی دھندھاومشغلہ ترک کرکے خطابت وغیرہاکے فرائض انجام دیتا ہے تواگراس کو معاوضہ نہ دیاجائے گاتووہ اپنی زندگی کی ضروریات کو کس طرح پوراکرےگااگرایک آدمی سب کچھ چھوڑ کراسی کام میں لگ گیا ہےتوان کو اس کا معاوضہ دینا چاہیے لیکن یہ دین کی تبلیغ کا صلہ نہیں بلکہ اس محنت کا صلہ ہے جو وہ اپنا سب کچھ ترک کرکے کررہا ہے ورنہ اگروہ یہاں متعین نہ ہوتا توکوئی مشغلہ اختیارکرکےاپنے روزگارکا انتظام کرلیتا۔اسی طرح جلسوں وغیرہ میں جانے کا معاملہ ہے ۔اگرجہاں جلسہ ہورہاہےوہ کافی دورہے اوروہاں پہنچناکافی رقم صرف کیے بغیرآسان نہ ہوتوجوبلانےوالے ہیں وہ ان کو اتنا خرچہ دیں جس سے وہ وہاں پہنچ جائے۔ ہاں تبلیغ پروہ ان  سے کچھ رقم طےکرکے لے یہ جائز نہیں ۔البتہ بلانے والے اپنی  مرضی سے(بلاتقاضےکے)ان کو ہدیہ کچھ دے دیں تواس میں کچھ مضائقہ نہیں ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ راشدیہ صفحہ نمبر 480
Flag Counter