Maktaba Wahhabi

994 - 1201
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام متقدمین و متاخرین مفسرین کے نزدیک یہ بات معلوم و مشہور ہے کہ یہ آیت کریمہ کفار سے موالات کی ممانعت اور مومنوں سے موالات کے حکم پرمبنی ہے۔[1] ب: اللہ تعالیٰ کسی انسان کی مدح و ستائش اسی وقت کرتا ہے جب اس کے عادات و خصائل اسے محبوب ہوں، خواہ ان عادات کا تعلق واجبات کی ادائیگی سے ہو یا مستحبات سے اور حالت نماز میں صدقہ کرنا بالاتفاق علمائے اسلام قطعاً مستحب نہیں ہے، اگر مستحب ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ضرور کرتے، یا اس پر کسی کو ابھارتے یا آپ سے یہ عمل بار بار ہوتا، مزید برآں دوران نماز یہ عمل ایک خارجی مشغولیت ہے جسے بعد از نماز بھی کیا جاسکتا تھا، بلکہ مانگنے والوں کو صدقات دینے میں مشغول ہونے سے نماز باطل ہوجاتی ہے جیسا کہ بہت سارے اہل علم کی رائے ہے۔[2] ج: اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ عمل نماز میں حرام نہیں ہے بلکہ ایک مشروع اور جائز عمل ہے، تو رکوع کے ساتھ اس کی خصوصیت کا کیا مطلب؟ اور یہ کیسے کہا جاسکتاہے کہ ’’ولی نہیں ہیں مگر وہی لوگ جو رکوع کی حالت میں صدقہ کرتے ہیں‘‘ اگر کوئی یہ کہے کہ اس مخصوص عمل کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کا تعارف مقصود ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے تعارف کے لیے اس کے علاوہ دیگر بہت سارے اوصاف ہیں جو ظاہر و باطن ہیں، پس اُن ظاہری اوصاف حمیدہ کو چھوڑ کر اس عمل کے ذریعہ سے آپ کا تعارف کیوں کرایا گیا کہ جسے صرف وہی جان سکتاہے جس نے صدقہ لیا اور بروقت واقعہ کو دیکھا اور سنا؟ جمہور امت کو اس کی کوئی خبر نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کی کسی معتبر کتاب میں یہ چیز مذکور ہے۔[3] د: اور ان کا یہ کہنا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی انگوٹھی حالت رکوع میں بطور زکوٰۃ ادا کی تھی، سو ایسی صورت میں گویا آیت خلاف واقع نازل ہوئی، کیونکہ علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن پر عہد نبوت میں زکوٰۃ واجب تھی، بلکہ آپ فقیر و نادار تھے اور چاندی پر زکوٰۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو ایک سال تک چاندی رکھ کر صاحب نصاب رہا ہو اور یہ معلوم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ان میں سے نہ تھے۔[4] ھ: زکوٰۃ کی حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا خود اس کی ادائیگی کرے، نہ یہ کہ وہ سائل کے آنے کا انتظار کرے، آپ خود سوچیں کہ کیایہ بہتر ہے کہ وقت ہوجانے پر تم فوراً زکوٰۃ کی ادائیگی کرو، یا کہ تم اپنے گھر اپنی زکوٰۃ لیے بیٹھے رہو اورانتظار کرو کہ تمھارے پاس کوئی تمھارا دروازہ کھٹکھٹائے گا تب تم اسے اپنی زکوٰۃ دو گے؟ یقینا آپ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے وجوب کے پیش نظر پہلی ہی بات پسند کریں گے بشرطیکہ اس پر سال گزر جائے اور وہ نصاب تک پہنچ جائے۔[5]
Flag Counter