Maktaba Wahhabi

971 - 1201
وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ (لقمان: 34) ’’کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔‘‘ اسی طرح صرف اللہ ہی کی ذات ہے جس کی نگاہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، فرمایا: لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ (سبائ:3) ’’اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں۔‘‘ مختصر یہ کہ جو شخص اس عقیدہ سے متعلق ’’الکافی‘‘ کے ابواب کا مطالعہ کرے گا وہ دیکھے گا کہ وہ ابواب تاریخ کے مدعیان نبوت اور ملحدین اسلام کے عقائد و نظریات سے چنداں مختلف نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ انھوں نے اپنے لیے دعوائے نبوت کیا تھا اور انھوں نے اسی تہمت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ گھرانے والوں کی طرف منسوب کیا ہے۔[1] 4۔اثبات عصمت پر عقلی دلائل: ٭ ایک دلیل تو یہ ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ پوری امت مسلمہ کا کوئی ایسا امام ہونا ضروری ہے جو غلطیوں سے معصوم ہو، تاکہ وہ امت کو سیدھا راستہ دکھا سکے، پس اگر وہ امام خود غلط کار ہوگا تو ضروری ہوگا کہ کوئی دوسرا فرد ہو جو اس امام کو سیدھا راستہ دکھائے، اس طرح ایک سلسلہ طویل ہوجاتا جائے گا، بنابریں لازم آتا ہے کہ ہم امام کو غلطیوں سے معصوم قرار دیں، کیونکہ ثقاہت امامت کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ امت کے ذریعہ سے۔ ٭ اسی طرح ایک دوسری دلیل یہ ہے کہ دراصل امام ہی شریعت کا حقیقی محافظ ہوتا ہے اس کے بغیر قرآن و سنت اور اجماع کسی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔[2] تردید: جب کہ حقائق تو اس کے بالکل برعکس ہیں، پوری امت مسلمہ اپنے رب کی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعہ سے معصوم ہے، یہ امت کبھی کسی گمراہی پر مجموعی طور سے متفق نہیں ہوسکتی اوربحیثیت مجموعی امت کا معصوم ہونا امام کی عصمت سے بے نیازی کا سبب ہے۔ امت کے معصوم ہونے کی حکمت پر علمائے سلف فرماتے ہیں کہ ہم سے پہلے کی امتیں جب اپنے دین میں رد و بدل کردیتی تھیں تو اللہ تعالیٰ ان میں نبی مبعوث فرماتا تھا، جو ان میں حق کی وضاحت کرتا تھا، اور چونکہ اس امت کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب اس میں کوئی نبی نہیں آنے والا ہے تو گویا اس کی عصمت نبوت کے قائم مقام ٹھہری، ایسی صورت میں اس امت کے کسی فرد کے لیے یہ جائز
Flag Counter