Maktaba Wahhabi

503 - 1201
آپ پوچھتے: کیوں؟ وہ جواب دیتے: اس لیے کہ ہم نے چوری کی تھی۔ پھر آپ فرماتے اے اللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو گواہ رہ۔[1] آپ نے ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کو اس لیے داغ دیتے تاکہ خون گرنا بند ہوجائے اور وہ جلدی شفایاب ہوجائے، مبادا زخم جسم کے دوسرے حصہ کو متاثر نہ کردے کہ اس سے موت واقع ہوجائے۔[2] بلاشبہ لوگوں کے مال کی حفاظت کرنا اسلامی شریعت کے اہم ترین مقاصد میں شامل ہے، کیونکہ مال انسانی زندگی کی اساس ہے، اسی لیے اسلام نے ناحق طریقہ سے مال لینے کے کسی بھی ذرائع کو حرام قرار دیا ہے، چوری کو حرام قرار دیا اور جس آدمی کے حق میں چوری کا ثبوت مل جائے اس پر شرعی حد واجب کی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ (المائدۃ:38) ’’اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے۔‘‘ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ خلفائے راشدین نے ان احکام کی تنفیذ کا پورا پورا اہتمام کیا۔ قانون قصاص اور بدعنوانیوں کا خاتمہ جان کی حفاظت اور قتل و خون ریزی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مہلکات و نقصانات کی روک تھام کے لیے اسلامی شریعت نے قصاص کا قانون پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ (البقرۃ:178) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر مقتولوں میں بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (البقرۃ:179) ’’اور تمھارے لیے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے اے عقل والو! تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘ اور فرمایا: وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ﴿٣٣﴾ (الاسرائ:33) ’’اور جو شخص قتل کیا گیا ہو، اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقینا ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقینا وہ مدد دیا ہوا ہوگا۔‘‘
Flag Counter