6: خالہ کو اپنی بھانجی کی پرورش کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے، اس لیے کہ بیوی اپنے شوہر کی مصلحت ومنفعت کی محافظ ہے اور دوسرے کی اولاد کی پرورش سے اس کی مصلحت کو قدرے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، لہٰذا اس کی اجازت و رضامندی ضروری ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا کی بیٹی کی پرورش وکفالت کا مطالبہ اس لیے کیا کہ ان کی بیوی بچی کی خالہ تھیں، گویا وہ خود ہی رضا مند تھے، بیوی کو کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ 7: اگر کسی عورت نے ایسے دوافراد کو دو دھ پلایا ہے کہ ان میں ایک چچا ہے اور ایک بھتیجا تو وہ دونوں آپس میں رضاعی بھائی ہوں گے، اور چچا کی ساری بیٹیاں اس کے لیے رضاعی بھتیجیاں ہوں گی، اور اس کے لیے ان سے نکاح حرام ہوگا۔[1] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوۂ خیبر میں: ابن اسحاق نے کہا کہ غزوۂ خیبر ماہ محرم 7 ھ میں پیش آیا۔[2] واقدی کہتے ہیں کہ یہ ماہ صفر یا ربیع الاوّل میں ہجرت کے چھٹے سال پیش آیا جب صلح حدیبیہ سے و اپس لوٹے۔[3] ابن سعد کا قول ہے کہ ہجرت کے ساتویں سال جمادی الاولیٰ میں ہوا ہے۔ امام زہری اور مالک کا کہنا یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال محرم میں یہ غزوہ پیش آیا۔[4] اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے [5]بھی اسی تحقیق کو راجح قرارد یا ہے۔[6] یہ وہ جنگ ہے جس میں علی رضی اللہ عنہ کی نادرۂ روزگار شجاعت، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کی حیثیت کھل کر سامنے آگئی، اور تقدیر کا یہ فیصلہ کہ یہ یہودی نوآبادیاتی کالونی جس کی جنگی، فوجی نیز جغرافیائی لحاظ سے بڑی اہمیت تھی وہ علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہو۔[7] خیبر ایک یہودی نوآبادیاتی کا لونی تھی جس کے متعدد مضبوط قلعے تھے اور یہ یہودیوں کا جنگی مورچہ تھا، یہی نہیں بلکہ جزیرۃ العرب میں جو ان کی چھاؤنیاں تھیں ان میں آخری چھاؤنی یہی تھی، یہودی، مسلمانوں کے خلاف مدینہ کے یہودیوں اور دوسرے علاقے کے د شمنوں سے مل کر سازش کررہے تھے کہ مدینہ پر حملہ کریں، رسول اللہ کی خواہش تھی کہ ان یہودیوں کی آئے دن کی سازشوں اور حملہ کے خطرات سے ہمیشہ کے لیے مطمئن ہوجائیں، خیبر، مدینہ کے شمال مشرق میں ستر میل(70) کی مسافت پرہے۔[8] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے، مجاہدین کی کل تعداد چودہ سو، (1400) تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے قلعوں پر حملہ کی ٹھان لی اور ایک ایک قلعہ فتح ہوتا رہا، اس وقت علی رضی اللہ عنہ آ شوب چشم میں مبتلا تھے۔[9] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَأُعْطِیَنَّ ہٰذِہِ الرَّاْ یَۃَ غَدًا رَجُلًا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |