خاندان اور نسلوں میں موروثی اثرات: علم التشریح (Anatomy) نفسیات، اخلاقیات، اور علم اجتماع میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر خون اور خاندان کے اثرات بڑی حد تک موجود رہتے ہیں اور اس کی سیرت کی تشکیل فطری صلاحیتوں، رجحانات اور ذہنیت کے بارے میں موروثی اثرات کا خاصا دخل ہوتا ہے، یہ اثرات تین شکلوں میں نمایاں ہوتے ہیں: اوّل:… آباء و اجداد جن قدروں کے سختی سے پابند رہے ہیں، جو عقائد ان کے دل و دماغ پر حاوی رہے ہیں اور جن کی تعظیم و توقیر ان کا شعار رہا ہے اور جن کے بارے میں ان کو اس درجہ حمیت، غیرت اور جوش رہا ہے کہ اگر خاندان کوئی فرد یا خود ان کی اولاد میں سے کوئی اس سے روگرداں ہو تو اس کو خاندانی روایات سے باغی سمجھیں۔ اس کو گھرانہ کے لیے ایسا ننگ و عار قرار دیں جسے خاندانی و روایاتی قانون و آئین میں کبھی معاف نہ کیا جاسکتا ہو۔ دوم:… ماں باپ اور گھر کے ماحول میں جن لوگوں کو بار بار سنایا جاتا ہے اور بزرگوں کے واقعات و حالات، ان کی اولوالعزمی، مروت، سخاوت، شجاعت، حق گوئی، حق پرستی، انسان دوستی، غریبوں کی مدد اور مظلوموں کی حمایت کے قصے جو بار بار کانوں میں پڑتے ہیں اور بچپن سے جوانی اور کبر سنی تک جن کا چرچا رہتا ہے، یہ باتیں ذہنیت کا رخ متعین کرتی ہیں، احساسات و رجحانات کو ایک خاص قالب میں ڈھال دیتی ہیں اور اخلاق و شرافت اور انسانیت و غیرت نفس کا ایک معین معیار قائم کرتی ہیں۔ سوم: … موروثی خصوصی اثرات اعضاء و جوارح (قد و قامت اور طرز گفتار) میں بھی پائے جاتے ہیں، خاص طور سے ان خاندانوں میں جہاں نسب کی اہمیت ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ خاندان کی اصلیت محفوظ رہے۔ لیکن یہ تمام باتیں ایک متعینہ حد تک اور عمومی حالات میں صحیح ہیں۔[1] ان میں کوئی بات کلیہ اور اصول کا درجہ نہیں رکھتی کہ کہا جائے ان میں کوئی استثناء نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کی یہ وہ سنت معہودہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے: فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا ﴿٤٣﴾ (فاطر:43) ’’پس تو نہ کبھی اللہ کے طریقے کو بدل دینے کی کوئی صورت پائے گا اور نہ کبھی اللہ کے طریقے کو پھیر دینے کی کوئی صورت پائے گا۔‘‘ اور اسی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا: (( النَّاسُ مُعَاذِنٌ کَمَعَادِنِ الْفِضَّۃِ وَالذَّہَبِ، خَیَارُہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خَیَارُہُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِہُوْا۔))[2] ’’لوگ کانیں ہیں جیسے چاندی اور سونے کی کانیں ہوں، ان میں جو لوگ جاہلیت کے زمانہ میں ممتاز تھے وہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی ممتاز رہے، (لیکن) جب انھوں نے اسلام کو سمجھ لیا۔‘‘ اور فرمایا: |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |