غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو شہ سوار تھے، ان میں ایک زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے جو میمنہ پر تھے اور دوسرے مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ تھے جو میسرہ پر تھے۔[1] 3۔غزوۂ احد میں: زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد میں میرے لیے اپنے والدین کو جمع کیا یعنی ((فِدَاکَ أَبِيْ وَ أُمِّي))(میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں) فرمایا۔[2] اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے غزوۂ احد میں اپنی جاں بازی اور سرفروشی کا مظاہرہ کیا، آپ ثابت قدمی، عزیمت اور اللہ کے راستہ میں شہادت کی تڑپ کے لیے مشہور تھے۔ اس غزوہ میں ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ کے مجاہدانہ کردار کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب دونوں لشکر آپس میں ٹکرا گئے اور جنگ کی آگ بھڑک اٹھی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی حوصلہ افزائی کرنے اور انھیں جنگ پر ابھارنے میں مصروف تھے تب آپ نے اپنے ہاتھ میں تلوار لی اور فرمایا: ((مَنْ یَّاخُذُ مِنِّيْ ہٰذَا؟)) کون ہے جو اسے مجھ سے لے گا؟ تمام صحابہ نے ہاتھ پھیلا دیے اور میں لوں گا، میں لوں گا، کہتے ہوئے لپکے، ان میں زبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ تب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَمَنْ یَّاخُذُہُ بِحَقِّہِ؟)) کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے گا؟ صحابہ قدرے تردد میں پڑ گئے، تب تک سماک بن خرشہ یعنی ابودجانہ پوچھنے لگے: اے اللہ کے رسول اس کا حق کیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَنْ تَضْرِبْ بِہِ الْعَدُوَّ حَتَّی یَنْحَنِيْ)) اس سے دشمن پر ایسا وار ہو کہ اس کی دھار مڑ جائے، ابودجانہ نے کہا: اے اللہ کے رسول!میں اسے اس کا حق دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلوار انھیں دے دی، وہ بہت بہادر آدمی تھے۔ جنگ میں نہایت اکڑ کر چلتے تھے، دوران جنگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ وہ دونوں صفوں میں تکبر کی چال چل رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا: ((إِنَّہَا لَمَشْیَۃُ یُبْغِضُہَا اللّٰہُ إِلَّا فِيْ ہٰذَا الْمَوْطِنِ۔))[3] ’’اللہ تعالیٰ اس چال کو ناپسند کرتا ہے مگر اس جگہ کے علاوہ۔‘‘ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ غزوۂ احد کے موقع پر ابودجانہ کے کردار کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں۔ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلوار مانگی تو آپ نے اسے مجھے نہ دے کر ابودجانہ کو دے دی تو میرے دل میں غصہ آیا اور میں نے ٹھان لیا کہ دیکھتا ہوں ابودجانہ کیا کر دکھاتے ہیں، چنانچہ میں ان کے پیچھے لگا رہا، انھوں نے سرخ رنگ کی ایک پٹی نکالی اور اسے اپنے سر پر لپیٹ لیا، انصار صحابہ یہ دیکھتے ہی کہنے لگے ابودجانہ نے اب موت کی پٹی نکال لی ہے، وہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |