Maktaba Wahhabi

1200 - 1201
پرستوں کو چھوڑ دیتا ہے۔[1] 17۔ برے ماحول کا اثر: اس میں کوئی شک نہیں کہ برا ماحول اپنی فضا میں سانس لینے والے انسانوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اگرچہ اس ماحول میں کوئی عدل پسند اور اس کے لیے کوشاں ہی کیوں نہ ہو، آپ دیکھئے کہ عبدالرحمن بن ملجم شبیب بن بجرہ سے جب ملتا ہے تو اس سے کہتا ہے: کیا تم دنیا وآخرت کی بھلائی کے خواہاں ہو، شبیب نے کہا: وہ کیسے؟ ابن ملجم نے کہا: علی بن ابی طالب کو قتل کرکے۔ اس وقت شبیب نے کہا تھا: تیری ماں تجھے گم کرے، تو نے تو انتہائی برا کام سوچ رکھا ہے، تم علی کو کیسے قتل کرسکتے ہو۔ ابن ملجم نے کہا: میں مسجد میں چھپ کر بیٹھا رہوں گا، جب علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد آئیں گے تو ہم دونوں ان پر اچانک حملہ کرکے انھیں قتل کردیں گے، اگر ہم بچ نکلے تو اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب رہیں گے اور اپنے مقتولین کا انتقام لے لیں گے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو آخرت کا اجر توبے حساب ہمیں ملے گا ہی۔ شبیب نے کہا: تیرا ستیاناس ہو، اگر علی کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میرے لیے یہ کام کچھ آسان ہوتا۔ علی نے اسلام کی بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں، اسلام لانے میں انھیں سابقیت کا شرف حاصل ہے، میں تو اس کام میں تمھارا ساتھ نہیں دوں گا، میرا دل اس کے لیے تیار نہیں۔ ابن ملجم نے کہا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ علی نے معرکۂ نہروان میں اللہ تعالیٰ کے سینکڑوں نیک اورپاکباز بندوں کو قتل کیا تھا؟ شبیب نے مثبت جواب دیا۔ پھر ابن ملجم نے کہا: تب بھلا علی کو ہم اپنے بھائیوں کے بدلہ کیوں نہ قتل کریں۔ طبری کی روایت کے مطابق پھر شبیب نے اس کی بات مان لی۔[2] اے میرے بھائی! اللہ تمھیں سلامت رکھے! ذرا غور کرو کہ گمراہ کن خیالات اور فاسد افکار کے حامل لوگ کس طرح اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اسلام میں علی رضی اللہ عنہ کی قربانیوں، اور اسلام کی طرف آپ کی سابقیت جیسے فضائل اور زندہ کارناموں کے پیش نظر شبیب، ابن ملجم کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا اور نہ اس کا دل اس پر مطمئن تھا، لیکن بایں ہمہ ابن ملجم شبیب کو معرکۂ نہروان کے مقتولین کے حوالہ سے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بہکاتا رہا اور اپنے بھائیوں کے تئیں اس کے انتقامی جذبات کو بھڑکاتا رہا، بالآخر وہ اس میں کامیاب ہوگیا اور شبیب نے اس کی بات مان لی، حالانکہ معرکۂ نہروان کے خوارج مقتولین کا قتل کیا جانا قطعاً غلط نہ تھا بلکہ برحق تھا۔ پس نتیجہ میں شبیب کو ملا کیا؟ صرف افکار کا بگاڑ، بدنامی اور کھلا ہوا گھاٹا۔ لہٰذا یہ واقعہ ہر مسلمان کو دعوت دیتا ہے کہ جو شخص بھی اس طرح کے بگڑے ہوئے عقائد اور پراگندہ خیالات والے منہج پر قائم ہو اس کی صحبت سے بچا جائے اوران علمائے ربانی کی صحبت اختیار کی جائے جنھیں حق کی صحیح معرفت ہے اور اس کے لیے وہ کام کرتے ہیں اور لوگوں کو دنیا وآخرت کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، پس جو مسلمان اس سیدھے راستہ سے مطمئن نہ ہوگا اور فاسد عقائد کی صحبت اختیار کرے گا وہ عنقریب ندامت کی
Flag Counter