نیز انھی سے مروی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جو شخص عثمان کے دین سے برأت کا اظہار کرے وہ ایمان سے برأت کا اظہارکر رہا ہے، اللہ کی قسم! میں ان کے قتل میں معاون نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے راضی ہوں۔‘‘[1] آپ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے تھے اور ان کے بارے میں کہتے تھے: وہ ہم میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے زیادہ رب سے ڈرنے والے تھے۔[2] اور عمیرہ بن سعد کا بیان ہے کہ ہم دریائے فرات کے ساحل پر علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ٹہل رہے تھے، ہمیں دریا میں ایک کشتی گزرتی ہوئی نظر آئی جس کا باد بان بلند تھا، علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ ﴿٢٤﴾ (الرحمٰن: 24) ’’اور اللہ ہی کی (ملکیت میں) ہیں وہ جہاز جو سمندروں میں پہاڑ کی طرح بلند (چل پھررہے) ہیں۔‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس نے اپنے سمندروں میں سے ایک سمندر میں اس کشتی کو رواں کیا! میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کیا اور نہ کسی کو اس پر ابھارا۔[3] آپ فرماتے ہیں کہ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی میں غم سے نڈھال ہوگیا۔[4] حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام روایات کی اسناد کو جمع کیا ہے جن میں علی رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے بَری ہیں اور یہ کہ آپ اپنے خطبات وغیرہ میں قسم کھایا کرتے تھے کہ انھوں نے عثمان کو قتل نہیں کیا اور نہ اس سے راضی ہوئے۔ یہ بات آپ سے اتنی کثیر اسناد سے ثابت ہے کہ جو بہت سارے ائمہ کے نزدیک قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں۔ [5] اپنے لشکر کے مشکوک افراد سے کوئی خدمت لینے سے گریز کرنا: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان مشکوک لوگوں سے خطرہ لگا رہتاتھا، اس لیے آپ ان سے کوئی معاملہ کرتے تو چوکنے رہتے، یہی وجہ تھی کہ جب آپ نے شام پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا، بلکہ اپنے فرزند محمد بن الحنفیہ کو بلا کر انھیں عَلَم سونپا۔ عبداللہ بن عباس کومیسرہ اور ابو لیلیٰ بن عمر بن الجراح کو مقدمہ الجیش پر مامور کیا۔[6] اور قثم بن عباس کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔[7]گویا یہ آپ کی طر ف سے ایک پہل تھی جس میں آپ باغیوں سے اپنی برأت کا واضح اشارہ دے رہے تھے اور بغیر ان کی مدد کے مسلمانوں کے معاملات کو سنبھال لینے کی قوت کا ثبوت دینا چاہتے تھے، اس لیے کہ مسلمانوں میں آپ کے عقیدت مند اور آپ کی خلافت کے اتنے مویدین موجود تھے کہ جن |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |