Maktaba Wahhabi

204 - 1201
’’پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عرب کے درمیان مروجہ نظام معاہدہ کی رعایت کرتے ہوئے حج کے ایام میں علی رضی اللہ عنہ کو مکلف کیا کہ مشرکین سے سابقہ عہد وپیمان کے اختتام کا اعلان کردیں، اہل عرب کے ہاں رواج تھا کہ کسی سے معاہدہ کرنا ہو، یا توڑنا ہو، دونوں حالتوں میں قبیلہ کا سردار یا اس کی اجازت سے اس کے خاندان کا کوئی فرد ذمہ داری اپنے سر اٹھاتا تھا، چونکہ عربوں کے اس مروجہ نظام میں کوئی بات اسلام سے متصادم نہ تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلہ کو اچھی طرح نبھایا اور علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ یہ کام لگا دیا کہ وہ نقض عہد کا اعلان کردیں، پس یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو سورۂ براء ت کی ابتدائی چندآیات کی تبلیغ کا مکلف بنایا، نہ یہ کہ اس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ پرعلی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تقدم کی طرف اشارہ مقصود تھا جیسا کہ روافض کا خیال ہے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیسے یہ لوگ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس بات سے بالکل غافل ہیں۔ جس میں آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا، کیا امیر ہوکر آئے ہو، یا ماتحت بن کر۔ [1] جو شخص خود ماتحتی کا اقرار کررہا ہو امیر سے زیادہ خلافت کا حق دار کیسے ہوسکتا ہے۔ [2] دراصل یہ حج، حجۃ الوداع کے لیے تمہید کے قائم مقام تھا اور اسی حج میں یہ اعلان کردیا گیا کہ بت پرستی کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اب نئے دور کا آغاز ہورہا ہے، اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ سارے لوگ اللہ کی شریعت کو مان لیں اور اس اعلان کے بعد ہی جزیرۂ عرب کے تمام قبائل کو یقین آگیا کہ معاملہ یقینا بہت ہی اہم ہے، اور بلاشبہ بت پرستی کا دور ختم ہوچکا ہے اور پھر لا تعداد قبائل عرب اپنے اسلام کا اعلان کرتے ہوئے اور توحید کے نغمے گاتے ہوئے اپنے وفود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں بھیجنے لگے۔[3] نجران کے نصاریٰ کا وفد، آیت مباہلہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا کردار (9ھ ): اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصاریٰ کے پاس ایک خط بھیجا، جس میں آپ نے لکھا تھا: حمد وصلاۃ کے بعد: میں تمہیں اللہ کے بندوں کی عبادت سے اللہ کی عبادت کی طرف اور بندوں کی ولایت سے اللہ کی ولایت کی طرف دعوت دیتا ہوں، اگر انکار کرتے ہوئے تو جزیہ دو، ورنہ اعلان جنگ ہے۔ والسلام۔[4] ان کے بڑے پادری کو جب یہ خط ملا تو اس نے لوگوں کو اکٹھا کیا، انھیں خط پڑھ کر سنایا اور اس سلسلہ میں ان سے رائے طلب کی، بالآخریہ بات طے ہوئی کہ عمائدین پر مشتمل چودہ (14) اور دوسری روایت کے مطابق سولہ
Flag Counter