میں اللہ سے رحمت کی دعا کی اور کہا: ’’جو ہوا سو ہوا، اب میں تم سب کا محفوظ امیر ہوں، اگر اللہ نے چاہا تو میں ہی جابروں اور فسادیوں کاقاتل بنوں گا، لہٰذا تیاری کرو اور کسی بھی وقت لڑنے کے لیے تیار رہو اور یقین جانو کہ فتح ہوگی۔‘‘[1] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’سلیمان کی شکست خوردہ فوج کے واپس آنے سے قبل ہی مختار نے اپنے شیطان کے اشارے پر اپنے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ وہ لوگ ہزیمت اٹھائیں گے، واضح رہے کہ مسیلمہ کذاب کی طرح اس کا بھی ایک شیطان تھا جو اسے حالات سے آگاہ کیا کرتا تھا۔‘‘[2] اس کے بعد مختار نے عراق اور خراسان وغیرہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اپنے پیروکاروں کے نام قاتلین حسین کے لیے قتل عام کا فرمان جاری کیا، لڑائی کے لیے فوج بنائی، علم باندھا اور قاتلین حسین کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل عام شروع کردیا، خواہ وہ شرفاء ہوں یا کمینے۔[3] 4۔چوتھا مرحلہ: چوتھا مرحلہ زیدیہ اور دیگر شیعی فرقوں سے ہٹ کر روافض شیعہ کی مستقل تنظیم نو سے شروع ہوتا ہے، جس کی بنیاد بالتحدید 121ھ میں اس وقت پڑی جب زید بن علی بن حسین نے ہشام بن عبدالملک کے خلاف جنگ کا بگل بجا دیا۔[4] اتفاق سے انھیں کے لشکر میں رہنے والے بعض شیعہ نے ابوبکر و عمر پر لعن طعن شروع کردیا، ان کی یہ حرکت آپ کو ناپسند آئی اور آپ نے اس سے منع کیا، لیکن وہ نہ مانے اور آپ کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ اسی بنا پر انھیں رافضہ کہا جانے لگا، کیونکہ رافضہ کا معنی ہوتا ہے چھوڑ دینا اور نہ ماننا، پھر جو جماعت آپ کے ساتھ باقی رہی اس کا نام زیدیہ پڑگیا۔[5] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں ’’رافضہ‘‘ کا لفظ سب سے پہلے اس وقت وجود میں آیا جب دوسری صدی ہجری کے آغاز میں زید بن علی لڑنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، اس وقت کچھ لوگوں نے آپ سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ نے ان سے اپنی محبت اور دینی لگاؤ کا اعتراف کیا جس کی وجہ سے ان لوگوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور یہیں سے ان کا نام ’’رافضہ‘‘ پڑگیا۔[6] نیز فرماتے ہیں کہ زید بن علی کے خروج کے زمانہ ہی سے شیعہ دو فرقوں یعنی رافضہ اور زیدیہ میں تقسیم ہوئے، کچھ لوگوں نے آپ سے ابوبکر و عمر کے بارے میں آپ کا عقیدہ جاننا چاہا، تو آپ نے ان (شیخین) کے لیے دعائے رحمت کی اور ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ان لوگوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا، اس وقت |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |