(2) مسیب بن نَجِیَّہ الفزاری: یہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں اور آپ کے پسندیدہ لوگوں میں تھے۔ (3) عبداللہ بن سعد بن نفیل ازدی (4) عبداللہ بن وائل التیمی (5) رفاعہ بن شداد البجلی۔ یہ پانچوں لوگ جو کہ علی رضی اللہ عنہ کے پسندیدہ ساتھیوں میں سے تھے، سلیمان بن صُرد کے مکان پر جمع ہوئے اور ان کے ساتھ دیگر شرفاء و ممتاز شیعہ بھی اکٹھا ہوئے۔[1] یہ ایک عام شیعہ کانفرنس تھی جو منعقد ہونے جارہی تھی، بہرحال سلیمان بن صرد کی قیادت میں سترہ ہزار شیعہ جمع ہوئے، پھر بھی سلیمان کو یہ تعداد کم لگی اور اس نے حکیم بن منقذ کو کوفہ میں اعلان عام کے لیے بھیج دیا، پھر یہ لوگ تقریباً بیس ہزار کی تعداد میں جمع ہوئے۔ [2] اسی دوران مختار بن ابوعبید الثقفی کوفہ آپہنچا اور دیکھا کہ یہاں کے تمام شیعہ سلیمان بن صرد پر متحد ہوچکے ہیں، ان کی بے حد تعظیم و احترام کرتے ہیں اور سب کے سب ان کے پرچم تلے جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں، تو اس نے کوفہ میں سکونت کرنے کے بعد شیعوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے محمد بن علی بن ابی طالب یعنی محمد بن الحنفیہ کو مہدی کا لقب دے کر ان کی امامت کی طرف دعوت دینا شروع کردی اور بہت سارے شیعہ سلیمان بن صرد کا ساتھ چھوڑ کر مختار کے ساتھ ہوگئے، اس طرح شیعیت دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئی، ایک جماعت اکثریت کی شکل میں سلیمان کے ساتھ رہی، جس کا مقصد شہادت حسین کا قصاص لینے کے لیے میدان جنگ میں اترنا تھا اور دوسری جماعت مختار کے ساتھ تھی جو محمد بن الحنفیہ کی امامت پر لوگوں کو متحد کرنا چاہتی تھی، حالانکہ محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ یہ جماعت اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کے لیے آپ کے نام کا استعمال کر رہی تھی۔[3] یہیں سے شیعہ کی منظم جماعت وجود میں آئی، پھر مؤرخین کے بقول سلیمان بن صرد اپنے مویدین کو لے کر شام چلے گئے اور ’’عین الوردہ‘‘ نامی چشمہ کے پاس اہل شام سے خون ریز جنگ لڑی، جو تین دن تک جاری رہی۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’کیا بوڑھے، کیا نوجوان، کسی نے ایسی لڑائی نہیں دیکھی تھی، دن بھر لڑائی جاری رہتی صرف نماز کے اوقات میں بند ہوتی۔‘‘[4] تین دنوں کے بعد سلیمان بن صرد اور آپ کے بیشتر ساتھیوں کے قتل و ہزیمت پر یہ جنگ بند ہوئی، بقیہ لوگ کوفہ واپس چلے گئے۔[5] ادھر مختار بن عبید ثقفی کو سلیمان کی ہزیمت خوردہ باقی ماندہ فوج کی کوفہ واپسی کی جب خبر ملی اور ان کے زبانی پوری تفصیلات کا علم ہوا، تو اس نے سلیمان اور ان کے ساتھیوں کے قتل کیے جانے پر ان کے حق |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |