’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ کسی قوم کو اس کے بعد گمراہ کر دے کہ انھیں ہدایت دے چکا ہو ، یہاں تک کہ ان کے لیے وہ چیزیں واضح کر دے جن سے وہ بچیں۔‘‘ خود ان کی روایات میں ان کے اس عقیدہ کی تردید موجود ہے، اگرچہ ان کے تقیہ اور تاویلات اس طرح کی معتدل تحریروں کو آنکھوں سے غائب کردینے سے نہیں چوکتیں، پھر بھی میں اس امید پر اسے ذکر کر رہا ہوں کہ شاید کوئی عقل مند اس سے عبرت پکڑلے، یا غافل ہوش میں آجائے، یا سونے والا بیدار ہوجائے اور جھگڑالو پر اسی کی کتاب سے حجت تمام ہوجائے اور اسے معلوم ہوجائے کہ خود ہماری تحریروں میں تناقض موجود ہے۔ چنانچہ تفسیر فرات میں علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت فرماتے ہوئے سنا جب کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ (الشوری: 23) ’’کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی۔‘‘ کہ جبریل علیہ السلام نے کہا: اے محمد ہر دین کی ایک اصل اور اساس ہے اور اس کے فروعات و ستون ہیں، مذہب اسلام کے اساس اور اس کا بنیادی ستون ’’لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہ‘‘ کا اقرار ہے اور اس کی فروعات و ستون تم اہل بیت کی محبت اور حق کی تائید و موافقت کی صورت میں تمھارا ساتھ دینا ہے۔[1] آپ سوچ سکتے ہیں کہ تفسیر فرات کی یہ عبارات ان کے عقیدہ پر مبنی روایات کی مکمل تردید کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ دین کی اساس کلمۂ توحید کی شہادت ہے نہ کہ ولایت ائمہ کا اقرار اور اہل بیت کی محبت فرع ہے کہ جن کی تائید و حمایت حق پرستی کے ساتھ مشروط ہے۔[2] ائمہ، اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں امامیہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ بارہ نامزد ائمہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔ چنانچہ مجلسی اپنے ائمہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ لوگ رب اور انسانوں کے درمیان پردہ کی طرح حائل ہیں، یہ اللہ اور اس کی مخلوقات کے درمیان واسطہ ہیں۔‘‘[3] مجلسی نے اس موضوع کے تحت اس نام سے ایک باب باندھا ہے کہ ’’لوگ ائمہ کے بغیر ہدایت پا نہیں سکتے، وہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں جو ان کا اعتراف و اقرار نہ کرے گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘[4] اور ’’عقائد امامیہ‘‘ نامی کتاب میں ہے کہ بارہ نامزد ائمہ اللہ کے دروازہ اور اس تک پہنچنے کا راستہ ہیں، ان کی مثال کشتی نوح کی سی ہے کہ جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ غرق آب ہوا۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |