Maktaba Wahhabi

1026 - 1201
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ لوگوں میں اپنا خلیفہ بنا دینے اور زمام خلافت سنبھالنے سے متعلق اللہ نے آپ کی طرف جو نازل کیا ہے آپ اس کی تبلیغ کردیں، چنانچہ آپ نے حکم الٰہی کی تعمیل کیا اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ نامزد کردیا۔[1] لیکن اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آیات اور احادیث جن سے یہ لوگ ثبوت امامت کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ غلط اور بے مطلب ٹھہریں، کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ’’غدیر خم‘‘ کے واقعہ تک علی رضی اللہ عنہ کی امامت کی نامزدگی نہ کی تھی۔ بہرحال مسئلہ امامت کے بارے میں امامیہ شیعہ کے نظریات کی تردید کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اس مسئلہ میں عبداللہ بن سبا یہودی کے علاوہ اور کوئی سند نہیں ہے کہ جس نے سب سے پہلے یہی پروپیگنڈا کیا کہ امامت، نبی اکرم کی وصیت ہے اور وہ وحی کے ساتھ مربوط ہے، اگر علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اس پر فائز ہوتا ہے تو اس سے براء ت کرنا اور اسے کافر جاننا ضروری ہے۔ شیعہ کتب مصادر کا اعتراف ہے کہ ابن سبا وہ پہلا شخص ہے جس نے امامت علی کی فرضیت کا مسئلہ سب سے پہلے عام کیا اور آپ کے مخالفین سے براء ت کا اظہار کیا، مخالفین سے کھل کر محاذ آرائی کی اور ان کی تکفیر کی۔[2] اس لیے کہ وہ یہودی تھا اور اس کا خیال تھا کہ یوشع بن نون موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں اور جب مسلمان ہوگیا تو اس نے یہی بات علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور کردی۔[3] اثنا عشری شیعہ اور عقیدۂ توحید: امامت کا عقیدہ شیعی مذہب کی اساس اور ارکانِ دین میں شمار کیا گیا ہے، امام ان کے عقیدہ کا ایک لازمی جزء ہے، شیعہ حضرات اپنے بعض ائمہ کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ اس امت کا جو فرد بغیر کسی امام کے زندگی گزراتا ہے وہ گمراہی اور حیرانی کی زندگی گزراتا ہے اگر اس حالت میں اس کی موت ہوجائے تو جاہلیت کی موت ہوگی۔[4] دراصل امام کے تئیں ان کا تصور تمام مسلمانوں کے اپنے خلیفہ کے تصور سے بالکل مختلف ہے، چنانچہ تمام مسلمانوں کے نزدیک امام یا خلیفۃ المسلمین کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ بھی زندگی گزارنے اور علوم و معارف کی حد تک عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہے، اس کے اختیارات وکردار کا اجمالی تعارف بس اتنا ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کا نافذ کرنے والا ہے وہ دوسرے انسانوں کی طرح خطا و انحراف کا شکار ہوسکتا ہے، اگر وہ حکم الٰہی کی مخالفت کرے تو اس سے معارضہ بھی کیا جاسکتاہے۔ مزید برآں یہ کہ خلیفہ کا انتخاب شورائی نظام کے مطابق مسلمانوں کی طرف سے ہوگا۔[5]
Flag Counter