Maktaba Wahhabi

572 - 1201
ہوتے تھے، چنانچہ مصر کی گورنری کے سلسلہ میں محمد بن ابو بکر کے نام جو فرمان بھیجا اور انھوں نے اسے پڑھ کر لوگوں کو سنایا، وہ فرمان عوام اور بالخصوص گورنر کی نصیحت پر مشتمل تھا۔[1] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے متعدد گورنران کے درمیان متعدد طریقہ سے اتصال برابر قائم رہتا تھا، خواہ یہ اتصال قلمی خطوط کے ذریعہ سے ہوں، یا زبانی ہو، یا براہ راست ملاقات کے ذریعہ سے ہو اور جب یہ گورنران علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے یا خوارج کی لڑائی میں آپ کا ساتھ دینے کی غرض سے کوفہ آتے تو پہلی ہی فرصت میں ملاقات کو ترجیح دیتے، آپ کے بارے میں یہ بات کہیں نہیں ملتی کہ پیشرو خلفائے راشدین کی طرح بحیثیت خلیفہ آپ نے حج کیا ہو اور ایام حج میں اپنے گورنران سے ملاقات کی ہو، بلکہ اس موقع پر آپ اولاد عباس جیسے اپنے کسی معتمد و ثقہ اور ذمہ دار کو اپنا نائب بنا دیتے، مشرقی ریاستوں کے گورنران آپ سے زیادہ ہی روابط رکھتے تھے، کیونکہ وہ کوفہ سے قریب تھے، اور ان کے وفود کوفہ جلدی جلدی آیا کرتے تھے۔ علی رضی اللہ عنہ کے فرامین نصیحتوں کی شکل میں جاری ہوتے تھے، ان میں گورنران کے لیے منہج کارکردگی کی نشان دہی ہوتی تھی، آپ نے اپنے ایک گورنر کے نام فرمان بھیجا کہ ’’تم لوگ رعایا کے خازن ہو، امت مسلمہ کے نمائندہ ہو اور حاکم وقت کے سفیر ہو، کسی سے اس کی ضروریات قطع نہ کرو، اس کے مقصد میں روڑے نہ اٹکاؤ اور لوگو ں سے خراج وصول کرنے کے لیے ان کے سردی گرمی کے کپڑوں، اور مویشیوں کو جن سے وہ کام لیتے ہوں اور ان کے غلاموں کو فروخت نہ کرو، ایک دو درہم کے لیے کسی کو کو ڑے مت لگاؤ، کسی آدمی کے مال کو ناحق ہاتھ نہ لگاؤ، خواہ وہ مسلمان ہویا معاہد۔[2] بعض دہقانی آپ کے کسی گورنر کی شکایت لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے اس طرح کارروائی کی: ’’ حمد وصلاۃ کے بعد! تمھاری ریاست کے کچھ زمینداروں نے تمھارے خلاف سختی، قساوت، تحقیر اور ظلم وزیادتی کی شکایت کی ہے۔ میں نے شکایت پر غور کیا۔ انھیں اس قابل تو نہیں پایا کہ وہ قریب کیے جاسکیں اس لیے کہ یہ مشرک ہیں اور یہ بھی مناسب نہیں کہ بھگا دیے جائیں، یا ظلم کیے جائیں اس لیے کہ یہ لوگ ہمارے ذمہ میں ہیں۔ لہٰذا تم نرمی کا لباس زیب تن کرلو اور اس کے ساتھ معمولی سختی کو بھی شامل کرلو، ان کے ساتھ کبھی سختی اور کبھی نرمی کا برتاؤ کیا کرو کبھی قریب کرو، اور کبھی دور کرو، ان شاء اللہ۔‘‘ [3] عہد علی رضی اللہ عنہ کے گورنر وں کے اختیارات امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تمام تر اختیارات کسی ایک آدمی کے ہاتھ میں دینے سے باز رہے اور انھیں محدود کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ہاتھوں میں تقسیم کرنے کے اصول پر کاربند رہے، چنانچہ آپ نے ابن
Flag Counter