Maktaba Wahhabi

114 - 263
عرشه ای ذهب عزه و ملکه[1]اسی طرح علامہ قرطبی لکھتے ہیں۔ وقد یؤول العرش فی الاية بمعنی الملک ای استوی الملک الاله عز وجل[2][3] مزید سورۃ یونس میں’’ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ...الخ‘‘[4] حضرت شیخ قدس سرہٗ نے فرمایا کہ استواء علی العرش حکومت وسلطنت سے کنایہ ہے یعنی زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور اس کی حکومت و سلطنت اور سارا نظام عالم اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس نے نظام عالم کا کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کیا۔ [5] اللہ تعالیٰ کے عر ش پر مستوی ہونے کا محمل از سعیدی رحمہ اللہ: ’’ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ‘‘[6]ابن الخطیب نے کہا:اس آیت کو اپنے ظاہر پر محمول کرنا ممکن نہیں ہے‘کیونکہ عرش پر استویٰ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستقر ہوں‘اس حیثیت سے کہ اگر عرش نہ ہوتا تو معاذ اللہ‘اللہ تعالیٰ اس سے گر جاتے۔اور اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے استقرار میں عرش کے محتاج ہوں‘اور اگر عرش نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ساقط ہو جائیں اور یہ محال ہے‘کیونکہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی عرش کو ٹھہرانے والے ہیں اور اس کی حفاظت فرمانے والے ہیں۔ جمہور مفسرین نے کہا ہے:عرش سے یہاں مراد یہ ہے کہ وہ بہت بڑا جسم ہے اور اس کو آسمانوں اور زمینوں کے پیدا فرمانے سے پہلے پیدا فرما یا گیا تھا‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ[7] یعنی اور اللہ عزوجل کا عرش پانی پر تھا۔ اللہ نے یہ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بیان میں بہت تعجب خیز ہے‘کیونکہ بنانے والا کسی چیز کو زمین پر بناتے وقت پانی سے دور رہتا ہے تاکہ اس کی بنا ء منہدم نہ ہو جائے‘اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پانی پر بنایا تاکہ اہل عقل اس کی قدرت کے کمال کو پہچانیں‘پس عرش پر استویٰ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قہر کے ساتھ عرش پر غالب ہے۔[8]
Flag Counter