Maktaba Wahhabi

114 - 1201
’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، اس کے لیے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’مدت رضاعت دو سال ہے، پس جو رضاعت اس مدت کے اندر ہو وہ حرمت کا سبب ہے، اور جو اس کے بعد ہو وہ نہیں۔‘‘[1] ٭ مذکورہ آیت کریمہ کے ظاہر معنی پر عمل کرتے ہوئے آپ نے زنا کی متہم ایک ایسی عورت کو تہمت سے بَری بھی قرار دیا جسے زوجیت کے چھ ہی مہینے میں ولادت ہوئی تھی، آپ کا استدلال اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ (البقرۃ:233) ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ ‘‘ دوسری جگہ فرمایا: وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ (الاحقاف:15) ’’اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔‘‘ ان دونوں آیات کواکٹھا کرنے سے معلوم ہوگا ہے کہ حمل کی مدت چھ مہینہ ہے اور دودھ چھڑانے کی مدت چوبیس (24) مہینے ہے۔[2] یعنی آپ نے (30) تیس مہینے کی مدت سے مدت رضاعت دو سال کو الگ کردیا، جس کے بعد صرف چھ ہی مہینہ کی مدت حمل کے لیے باقی رہی، جس سے معلوم ہواکہ چھ مہینہ میں حمل اور ولادت ممکن ہے، اس طرح آپ نے دونوں آیات کے ظاہری مفہوم کویکجا کرکے حکم صادر فرمایا۔[3] 2۔ مجمل آیت کو مفسر پر محمول کرنا: مجمل آیت کا مفہوم ہے کہ ایسی آیت جس کا مرادی معنی پوشیدہ ہو، بغیر وضاحت کے اس کی حقیقت تک رسائی ناممکن ہو۔[4] اور مفسر آیت کا مطلب ہے کہ ایسی آیت جس کا مرادی معنی اس قدر واضح ہو کہ مزید توضیح کی ضرورت نہ ہو۔[5] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے قرآن کی اس آیت کریمہ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ (المائدۃ:95) کے اجمال کو دوسری جگہ اس کی تفسیر پر محمول کیا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ہَدِي‘‘ کس کی ہونی چاہیے؟ آپ نے فرمایا: آٹھ نر و مادہ سے، آپ کو محسوس ہوا کہ شاید اسے کچھ تردد ہو رہا ہے، تو آپ نے اس سے کہا: کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان پڑھا:
Flag Counter