Maktaba Wahhabi

243 - 1201
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’فاطمہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کی قطع تعلقی کا جو ذکر ملتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات سے کھینچی کھینچی رہنے لگیں اور یہ انداز قطع تعلقی کی اس حرمت میں شامل نہیں ہے جس میں سلام و کلام بند ہوجاتا ہے، اور ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے اعراض کیا جاتا ہے اور حدیث میں ’’فَلَمْ تُکَلِّمْہُ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پھر وراثت کے سلسلہ میں ان سے گفتگونہ کی، یاد ل میں کچھ خلش ہونے کے ناطے ابوبکر سے اپنی کسی ضرورت کا مطالبہ نہ کیا اور نہ ہی ملاقات کرنے کی ضرورت محسوس کی تاکہ گفتگو کا کوئی موقع نکلے۔ کہیں بھی اس طرح کی کوئی روایت نہیں ملتی کہ دونوں کی ملاقات ہوئی ہو اور ایک دوسرے کو سلام نہ کیاہو، یا بات چیت نہ کی ہو،[1] بلکہ ان تمام باتوں سے ہٹ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جدائی کا غم جھیل رہی تھیں کیونکہ وہ مصیبت تمام مصائب پر بھاری تھی، اسی طرح آپ اپنی اس سخت بیماری سے پریشان تھیں جس نے آپ کو صاحب فراش بنادیا تھا، آپ کسی بھی چھوٹے بڑے معاملہ میں شرکت کرنے سے مجبور تھیں، چہ جائے کہ خلیفۃ المسلمین سے ملاقات کرنے جاتیں جو کہ ہر وقت امت کے معاملات اور خاص طور سے اس وقت جنگ ارتداد کے مسائل میں مشغول اور الجھے ہوئے تھے۔ مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق آپ اس حسین ترین لمحہ کے انتظار میں تھیں جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا تھا کہ میرے اہل میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرو گی۔[2] بھلا جو شخص فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسا علم ویقین رکھتا ہو وہ امور دنیا کی اتنی پرواہ کیونکر کرسکتا ہے، علامہ عینی نے مہلب کا کتنا عمدہ قول نقل کیا ہے کہ کسی بھی راوی سے ایسی روایت نہیں ملتی کہ دونوں ملے ہوں اور ایک دوسرے سے سلام نہ کیا ہو، انھوں نے دیگر مشاغل سے کٹ کر اپنے گھر رہنے کو ترجیح دی جسے راوی نے ’’ہجران‘‘ قطع تعلقی سے تعبیر کردیا۔[3] حقیقت یہ ہے کہ ابوبکر صدیق اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان مضبوط اور خوشگوار تعلقات تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جان لیوا بیماری میں ان کی عیادت اور تیمارداری کرتی تھیں اور ان کی زندگی کی آخری سانس تک ان کے ساتھ ر ہیں، انھیں غسل دلانے اور جنازہ تیار کرنے میں برابر شریک رہیں، علی رضی اللہ عنہ بذات خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت تو کرتے ہی تھے لیکن اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کی متعاون ہوتی تھیں، یہی وجہ تھی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تکفین وتدفین اور جنازہ کے اعلان سے متعلق اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کوکچھ وصیتیں بھی کی تھیں اور اسماء نے ان پر عمل بھی کیا۔[4] چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ عورتوں کے جنازہ پرڈالا جانے والا کپڑا جس سے عورت کی جسمانی ساخت نمایاں ہوتی ہے میں اسے نا پسند کرتی ہوں، اسماء نے کہا: اے دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ کو ایک ایسی چیز نہ دکھاؤں جو حبشہ والوں کے یہاں ہوتی ہے، پھر چند ہری ٹہنیاں منگوائیں اور اسے موڑکر کمان دار تابوت بنادیا، پھر اس کے اوپر چادر ڈال دی، فاطمہ رضی اللہ عنہا اسے دیکھ کر کہنے لگیں، یہ کتنا عمدہ اور خوش نما ہے، اس سے
Flag Counter