Maktaba Wahhabi

459 - 1201
(2) محکمہ قضاء امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالا تو اس کے ساتھ ہی وہ فتنے چمٹے رہے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل اور اس کے بعد کے ناگفتہ بہ حالات و حوادث کے نتیجہ میں رونما ہوئے، یہ ایسے سنگین حوادث تھے جنھوں نے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کردیا تھا اور انھیں ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا، لہٰذا اختلافات کی خلیج پاٹنے کے لیے ان حوادث کا مقابلہ کرنا آپ کی سب سے اہم مصروفیت تھی، تاہم آپ کے عہد میں یہ تمام تر حوادث اور خون ریز معرکے آپ کو قضاء و عدل کاخصوصی اہتمام کرنے اور اسے منظم کرنے سے نہ روک سکے۔ اس کی دلیل آپ کا وہ خط ہے جسے آپ نے اپنے مصری گورنر اشتر نخعی کے نام بھیجا تھا، اس میں آپ نے لکھا تھا: ’’لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایسے شخص کو مقرر کرو جو تمھارے نزدیک سب سے معزز ہو، کہ جس کے فیصلہ کو لوگ بلاچوں چراں مان لیں، اور کسی میں اس پر اعتراض کرنے کی جرأت نہ ہو، لغزش ہوجانے پر وہ سرکشی نہ کرے، حق کی معرفت کے بعد اسے تسلیم کرتے ہوئے شکستہ خاطر نہ ہو، وہ طمع سے پاک ہو، وسیع النظر کو پاتے ہوئے اپنی کم فہمی پر اکتفا نہ کرے، اعتراضات کی جگہوں سے خوب اچھی طرح واقف ہو، دلائل پر نگاہ رکھنے میں کامل ہو، فریقین کے دلائل سے گھبرائے نہیں، حقائق کی جاں کاری اور معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے لیے نہایت سنجیدہ ہو، کسی کی سفارش اور کسی کا عہدہ یا شرف اسے صحیح فیصلہ کرنے سے مرعوب نہ کرے۔ اگرچہ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں اور تم بھی ان کے فیصلوں پر گہری نگاہ رکھو، اس کی تنخواہ اس لیے زیادہ مقرر کرو کہ اسے رشوت خوری کی لت نہ پڑے اور اسے کم سے کم لوگوں سے واسطہ پڑے، اس کی قدر و منزلت تمھارے نزدیک اتنی ہونی چاہیے کہ کوئی شخص اس کے خلاف تمھارے کان بھرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ [1] اس خط میں مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’اللہ کے ساتھ انصاف کرو، اپنے ساتھ اپنے گھر و خاندان کے مخصوص افراد اور رعایا میں جس سے تمھیں خاص لگاؤ ہو اس کے ساتھ بھی انصاف سے کام لو، اگر تم ایسا نہیں کرتے تو ظالم ہو اور جو شخص اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم کرتا ہے تو بندوں کی طرف سے اللہ اس کا مدمقابل ہوجاتا ہے اور اللہ جس کا مدمقابل ہوجاتا ہے اس کے تمام دلائل اور تدبیروں کو باطل کردیتا ہے۔ ایسا انسان اللہ سے برسرپیکار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ظلم سے باز آجائے یا توبہ کرلے، اللہ کی نعمتوں کو چھیننے اور اس کے فوری عذاب کو دعوت دینے کے لیے ظلم سے بدتر کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ مظلوموں کی دعا سننے والا ہے اور ظالموں پر گھات لگائے بیٹھا ہے۔‘‘[2]
Flag Counter