Maktaba Wahhabi

578 - 1201
اور علی رضی اللہ عنہ نے مالک بن اشتر کے پاس لکھا تھا: ’’ ناحق خو ن بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا، کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلا کردینے والی ہوتی ہے، بلکہ اسے بنیادوں سے ہلا کر دوسروں کو سونپ دینے والی ہے۔ ‘‘ [1] 6۔ ریاستی سطح پر عدالتی نظام کی تشکیل: مالک بن اشتر کے خط میں علی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ پھر لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمھارے نزدیک تمھاری رعایا میں سب سے بہتر ہو، جو معاملات کی پیچیدگی سے تنگی میں نہ پڑ جاتا ہو اور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتاہو، نہ اپنے کسی غلط نقطۂ نظر پراڑتا ہو، نہ حق کو پہچان کر اسے اپنانے میں طبیعت پر بار محسوس کرتا ہو، نہ اس کا ذاتی نفس طمع پر جھک پڑتا ہو اور نہ بغیر پوری طرح چھان بین کیے ہوئے سرسری طور سے کسی معاملہ کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتا ہو۔ شک وشبہ کے موقع پر قدم روک لیتا ہو اور دلیل وحجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہو، فریقین کی بحث سے اکتا نہ جاتا ہو، معاملات کی تحقیق میں بڑے صبر و ضبط سے کام لیتا ہو، اور جب حقیقت آئینہ ہوجاتی ہو، تو بے دھڑک فیصلہ کردیتا ہو، وہ ایسا ہو جسے اس کی تعریف مغرور نہ بنائے اور سخت جانب داری پر آمادہ نہ کردے۔ دل کھول کر انھیں اتنا دینا کہ جو ان کے ہر عذر کو غیر مسموع بنا دے، اور لوگوں کی انھیں کوئی احتیاج نہ رہے، اپنے پاس انھیں ایسے باعزت مرتبہ پر رکھو کہ تمھارے دربار کے لوگ انھیں ضرر پہنچانے کا کوئی خیال نہ کرسکیں، ان کا خاص خیال رکھنا۔[2] خط کا یہ اقتباس چند باتوں پر دلالت کرتا ہے: ٭ قاضیوں کا تقرر گورنر کی ذمہ داری ہے۔ ٭ کسی قاضی کو منتخب کرتے ہوئے قاضی کو واجبی شرائط کی پابندی لازم ہے۔ ٭ قاضیوں کی پوری رعایت اور ان کی خصوصی دیکھ بھال واجب ہے تاکہ انھیںعوام کی طر ف سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہے۔[3] 7۔ مالی اخراجات: ریاستی اخراجات کی سرمایہ کاری کا منبع ومصدر اموال زکوٰۃ، صدقات، غنیمت، فے، خراج اور عشور ہیں اور یہ آمدنیاں مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کی جاتی ہیں۔ بیت المال کاایک ذمہ دار ہوتا ہے، جو اس کی ہر چھوٹی بڑی آمدنی اور اخراجات کو درج کرتا ہے۔ مرکز میں بیت المال کی بہت ہی اہم ذمہ داری ہوتی ہے ایسی جگہوں پر بیت المال کا خزانہ سب سے پہلے ریاستی امور پر خرچ ہوتا ہے، مثلاً گورنر، قاضی اور دیگر ریاستی حکام کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جاتی ہے، تعمیرات پر خرچ کیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پھر ان تمام
Flag Counter