Maktaba Wahhabi

871 - 1201
’’یہ لوگ اپنے عقائد و نظریات کی بنا پر عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے لگے، حاملہ عورتوں کے پیٹ کو چاک کرنا جائز سمجھا اور وہ وہ کام انجام دیے جو ان کے علاوہ کسی دوسرے نے نہیں کیے۔‘‘[1] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلی بدعت مثلاً خوارج کی بدعت کا وجود ان کی قرآن نافہمی کی وجہ سے ہوا، انھوں نے قصداً قرآن اور اپنی سمجھ میں ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش نہ کی تھی، بس قرآن کو اس مفہوم میں استعمال کیا جس پر وہ دلالت نہ کرتا تھا، اسی ناسمجھی کی وجہ سے انھوں نے یہ گمان کیا کہ گناہوں کے مرتکبین کی تکفیر واجب ہے، کیونکہ نیکوکار اور متقی شخص ہی کامل مومن ہوسکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص نیکوکار اور متقی نہ ہو وہ کافر ہے، اور ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے، پھر ان لوگوں نے عثمان، علی رضی اللہ عنہما اوران دونوں کے مویدین کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے قرآن کے علاوہ کو حکم مقرر کیا ہے، گویا ان کی بدعت کی دو تمہید ہیں: ٭ جس نے غلطی سے کسی عمل یا رائے کے ذریعہ سے قرآن کی مخالفت کیا وہ کافر ہے۔ ٭ عثمان، علی اور ان کے موئیدین رحمۃ اللہ علیہم اسی طرح کافر ہیں۔ لہٰذا گناہوں اور غلطیوں کی وجہ سے مومنوں کی تکفیر سے احتراز کرنا واجب ہے، کیونکہ اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے اسی بدعت کا ظہور ہوا اور اس کے معتقدین نے مسلمانوں کی تکفیر کی اور ان کی جان ومال کو حلال کیا، پس ان کی مذمت اور ان سے قتال کے لیے کئی صحیح احادیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔[2] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ناقابل معافی، گستاخی یعنی آپ کو ظالم ٹھہرانا: امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خوارج نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیا ہے کہ وہ جتنا چاہے آپ کی سنت پر ظلم کرے، انھوں نے آپ کی اطاعت و متابعت کو واجب العمل نہیں ٹھہرایا، صرف قرآن کی تصدیق کی اور اپنے گمان کے مطابق جو سنت ظاہر قرآن کے خلاف نظر آئی اس کو جھٹلا دیا۔ درحقیقت بیشتر اہل بدعت اور خوارج ان کے اسی نہج کے پیروکار ہیں، ان کا خیال ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نظریہ کے خلاف کہا ہے تو اس کی اتباع نہیں کرنا ہے۔ یہ لوگ اپنے خلاف دلائل کو ٹھکرانے کے لیے یا تو نص شرعی کا انکار کردیتے ہیں یا اس کی بے جا تاویل کرڈالتے ہیں۔ کبھی اسناد پر طعن کرتے ہیں کبھی متن میں عیب لگاتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ نہ تو متبع ہیں اور نہ ہی رسول کی لائی ہوئی حقیقی سنت، بلکہ حقیقی قرآن کے تابع ہیں۔[3] طعن و تشنیع: خوارج کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ یہ لوگ ائمہ ہدایت پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، انھیں گمراہ قرار دیتے ہیں، ان پر حق و عدل سے نکل جانے کا الزام تراشتے ہیں، ان کی یہ صفت ان کے موسس اوّل ذوالخویصرہ کے موقف سے
Flag Counter