Maktaba Wahhabi

769 - 1201
جب تک کہ سب لوگ اپنے مردوں کی تدفین سے فارغ ہوجائیں، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اسے قبول کیا، تدفین سے فراغت کے بعد پھر سب آپس میں بھڑ گئے اور گتھم گتھا ہوگئے جیسا کہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں گھس جائیں، علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کے بعض بعض لوگ سختی سے لڑتے ہوئے معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں گھس جاتے اور قتل کردیے جاتے اور پھر ان کی لاشوں کو وہاں سے نکال کر لایا جاتا، ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کے لوگ اپنے ایک مقتول کو لے کر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سامنے سے گزر رہے تھے، جب آپ کی نگاہ اس پر پڑی تو رونے لگے اور کہا: ’’مجتہد تھے، اللہ کے معاملہ میں ہم میں زیادہ ڈرنے والے تھے۔‘‘[1] یہ لوگ ایسی اندوہناک لڑائیوں میں بھی برائیوں سے ایک دوسرے کو روکتے تھے، اِس موقع پر وہاں علماء کی ایک جماعت تھی، یہ لوگ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، ان کا تعلق شام سے تھا، لیکن نہ علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا، نہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا، انھوں نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، لیکن آپ کے لشکر میں نہیں رہیں گے، ہم الگ پڑاؤ ڈال کر آپ کا اور شام والوں کا معاملہ دیکھیں گے، جسے ہم دیکھیں گے کہ وہ ناحق چیز کا خواہاں ہے یا بغاوت پر ہے ہم اس کے خلاف ہوجائیں گے، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: خوش آمدید۔ اسی کا نام ہے دینی فقاہت و بصیرت اور یہی ہے سنت کا علم، جو اس پر مطمئن نہ ہوا وہ ظالم اور خائن ہے۔[2] حقیقت یہ ہے کہ ان بے مثال مواقف کے پس پردہ اطمینان و یقین اور مبنی برخلوص اجتہادات سے لبریز ایسی محرکات کارفرما تھیں جو دلوں میں راسخ ہوچکی تھیں اور اسی پر ان لوگوں نے جنگ لڑی تھی۔[3] 11۔قیدیوں کے ساتھ برتاؤ: دورانِ قتال فریقین کے باہمی محبت کے تذکرہ کے بعد ہم بتانا چاہتے ہیں کہ اس جنگ میں قیدیوں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا گیا ہے اور جو احترام ان کے لیے روا رکھا گیا وہ بہت ہی روشن اور واضح ہے۔ اسلام نے قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کی نوعیت واضح کردی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی کے احترام اور اسے میسر کھانوں میں اچھے سے اچھا کھانا دینے کی نصیحت کی ہے جب کہ ایک غیر مسلم قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا یہ اہتمام ہے تو ایک مسلمان قیدی بلاشبہ احسان اور اکرام کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہوگا، لیکن اس جنگ کا قیدی چونکہ مخالف گروہ کا فرد تھا اور اپنے گروہ کے لیے مضبوط طاقت کی حیثیت رکھتا تھا۔[4] اس لیے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے انھیں قید کرنے کا حکم دیا، اگر کسی قیدی نے بیعت قبول کرلی تو آپ نے آزاد کردیا اور اگر انکار کیا تو اس کا ہتھیار اور گھوڑا چھین لیا، یا جس نے قید کیا اسے دے دیا اور قیدی سے قسم لے لی کہ وہ دوبارہ جنگ نہیں کرے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ
Flag Counter