شامل نہ کرنا وہ تمھاری ہمت کو کمزور کردے گا، کسی لالچی کو شامل نہ کرنا وہ لالچ کو ظلم کے لیے مزین کرکے پیش کرے گا، بخیلی، بزدلی اور لالچ یہ سب مختلف بری عادات ہیں، لیکن سب کا مصدر ایک ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی۔[1] سیّدناعلی رضی اللہ عنہ بخوبی واقف تھے کہ اگر حاکم کے پاس مشیر نہ ہوں گے تو وہ اپنی حکومت کی اچھائیوں اور برائیوں کو نہیں جان سکے گا اور بہت سارے ملکی مسائل اور لوگوں کے معاملات اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوں گے، لہٰذا باہمی مشورہ ہی سے اسے رہنمائی ملے گی کہ وہ کیا معاملہ ہے۔ اور وہی انگلی رکھ کر اسے بتائے گا کہ تو اس معاملہ سے بے خبر ہے، وہی تمام معاملات کی پیچیدگیوں اور شکوک کا ازالہ کرے گا۔ چنانچہ اشتر نخعی کو مصر کا گورنر بناتے ہوئے کہتے ہیں، اپنے کارندوں کو کوئی کام دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا کہ انھیں کوئی کام ان کی رضا و رغبت سے دینا، زبردستی اور بغیر رضامندی کے انھیں کوئی کام مت تھوپنا، کیونکہ کسی کو بغیر اس کی رضا معلوم کیے کسی کام پر مجبور کردینا اور اس پر سختی کرنا ظلم اور اللہ سے خیانت ہے، اور لوگوں کو مشقتوں میں مبتلا کرنا ہے۔ عوام اور حکام کسی کے معاملات اس وقت تک درست نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ ماتحت کارندے درست نہ ہوں جن سے کام لینا ہے اور اپنی غیرموجودگی میں جن پر اعتماد کرنا ہے، لہٰذا صاحب ورع، پاک دامن، اہل علم اور اہل دانش کو اپنا کارندہ بناؤ، دین دار خاندان اور نیک گھرانوں کے تجربہ کار، عقل مند، اور باعزت لوگوں کے ساتھ اٹھو بیٹھو، کیونکہ یہ لوگ دوسروں کے مقابلہ کہیں زیادہ بلند پایہ اخلاق، خوددار، اعتدال پسند اور انجام کار پر نظر رکھنے والے ہوتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کو تمھارا کارندہ اور معاون ہونا چاہیے۔[2] عدل و مساوات: اسلامی حکومت کا ایک اہم ترین مقصد یہ ہے کہ مسلم سماج کی تعمیر و بقا کے لیے اسلامی نظام کے قواعد و اساسیات کے نفاذ کی بھرپور جد و جہد ہو، ان قواعد و اساسیات میں عدل و مساوات کا سب سے اہم مقام ہے، اسی لیے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے درمیان عدل وانصاف قائم کیا، تمام تر انسانی اوصاف حمیدہ اور علمی، فقہی اور وہبی کمالات نے آپ کو اس لائق بنا دیا تھا کہ نہایت عمدہ اور مکمل طریقہ سے اس فریضہ کو ادا کریں، یہاں تک کہ آپ کی ذات اور عادلانہ صلاحیت پر اعتماد کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا اور آپ کے لیے یہ دعا کی تھی: ((اَللّٰہُمَّ ثَبِّتْ لِسَانَہٗ وَہْدِ قَلْبَہٗ ۔))[3][4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |