و: قرآن میں ’’توبہ‘‘ سے مراد ابوبکر، عمر اور عثمان ( رضی اللہ عنہم ) کی ولایت سے توبہ کرنا اور صرف علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا اعتراف کرنا ہے: چنانچہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فرمان: فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ (غافر:7) ’’پس تو انھیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں۔‘‘ کی تفسیر میں ان لوگوں سے تین روایات ہیں۔ ایک روایت کے اعتبار سے اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو تو بخش دے جنھوں نے فلاں فلاں کی ولایت سے رجوع کرلیا اور فلاں فلاں سے مراد ابوبکر، عمر اور بنوامیہ ہیں، جب کہ دوسری روایت کی بموجب اس کا مفہوم ہے کہ جن لوگوں نے بنوامیہ کے تینوں طاغوتوں یعنی ابوبکر، عمر اور عثمان کی ولایت سے توبہ کرلی اور تیرے راستہ کا اتباع کیا یعنی علی رضی اللہ عنہ کو امام تسلیم کرلیا، توان کو بخش دے۔ اور تیسری روایت کے اعتبار سے اس کا مطلب ہے کہ جن لوگوں نے مذکورہ تینوں خلفاء اور بنوامیہ کے خلفاء کی ولایت سے توبہ کرلی اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کو ان پر مقدم مانا تو انھیں بخش دے۔[1] یہ تینوں روایات ابوجعفر محمد الباقر کی طرف منسوب ہیں، حالانکہ آپ کے علم اور دین داری کے سامنے یہ ساری باتیں قطعاً غلط معلوم ہوتی ہیں۔[2] بہرحال یہ ان کی باطل تفاسیر کا ایک مختصرنمونہ تھا جسے یہاں پیش کیا گیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی بیشتر تفسیری مصادر و مراجع تفسیر کے باب میں اسی باطنی منہج پر قائم ہیں، جس کی آبیاری ابوالخطاب، جابر جعفی اور مغیرہ بن سعید جیسے متشدد و متعصب شیعہ کی فکر سے ہوئی ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی یاد رہے کہ پانچویں صدی ہجری میں اس قوم کے تفسیری منہج نے ایک دوسرا رخ اختیار کرلیا، یعنی باطنی تاویل میں ڈوبنے کا اس کے یہاں جو قدیم رجحان تھا اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا، چنانچہ اس جماعت کے بڑے بزرگ ابوجعفر محمد بن حسن الطوسی متوفٰی (460ھ) نے اہل تشیع کے لیے تفسیر کی ایک کتاب لکھی اور پوری کوشش کی کہ القمی، العیاشی اور اصول الکافی وغیرہ میں غلو پرستی کے جو مظاہر پائے جاتے ہیں ان سے مکمل چھٹکارا مل جائے، یا کم از کم اس کے اثرات کم ہوجائیں، انھوں نے بھی اپنی جماعت کے عقائد و اصول کی طرف سے اگرچہ دفاع کیا ہے اور اس کی مبتدعانہ نظریات کو ثابت کیا ہے تاہم ان مسائل میں اس درجہ تک نیچے نہیں اترے ہیں جہاں تک قمی اور اس کے معتقدین اتر گئے ہیں۔ طوسی کی طرح بالکل یہی موقف فضل بن حسن طبرسی نے بھی مجمع البیان میں اختیار کیا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طوسی اور ان کے ہم فکر لوگ اپنی تفسیر میں اہل سنت کی تفسیر سے استفادہ کرتے ہیں، ان کی تفاسیر میں جو کچھ بھی مفید معلومات ہیں وہ اہل سنت کی تفاسیر سے ماخوذ ہیں۔[3] امامیہ شیعہ کا صحابہ کرام کے بارے میں موقف: روافض شیعہ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہایت معاندانہ، حاسدانہ اور بغض و کینہ سے لبریز موقف |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |