Maktaba Wahhabi

278 - 1201
شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنہ میں سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کا موقف شہادت عثمان کی سازش کے اسباب مختلف تھے، اور اس کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھیں، مثلاً خوشحالی اور معاشرہ میں اس کا ظہور، سماج کا بدلتا ہوا ماحول ومزاج، عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا انتخاب، مدینہ سے بہت سارے بزرگ و ممتاز صحابہ کرام کا کوچ کرجانا اور دوسرے ممالک میں سکونت اختیار کرلینا، جاہلی عصبیت کا زندہ ہونا، حاسدین کی ریشہ دوانیاں، عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل، عوام میں پروپیگنڈہ کو عام کرنے کے لیے مختلف اسلوب ووسائل کا استعمال اور سبائی تحریک کی فتنہ سامانیاں، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے ان اسباب کو اپنی کتاب ’’عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ - شخصیت اور کارنامے‘‘ میں بطور تفصیل ذکرکیا ہے۔ سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی سازش میں دشمنان اسلام نے عوام الناس کو بھڑکانے والے اسلوب و وسائل کو استعمال کیا، یعنی افواہوں کا بازار گرم کیا اور پروپیگنڈائی آوازیں معاشرہ میں گونجنے لگیں، عوام الناس کے سامنے جواب دہی کے لیے خلیفۂ وقت سے مناظرہ اور مجادلہ کیا گیا اور شرپسندوں کو اس پر ابھارا گیا، دیگر حکام اور گورنران ریاست کو طعن وتشنیع کا ہدف بنایا گیا، عائشہ، علی، طلحہ، اور زبیر ( رضی اللہ عنہم ) کی طرف جھوٹے خطوط اور غلط تحریریں منسوب کی گئیں اور یہ بات عام کی گئی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ مستحق تھے، وہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں، نیز بصرہ، کوفہ اور مصر میں ہر جگہ سے لوگوں کی چار چار ٹولیاں بنائی گئیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے سے منظم تیاری کی جاچکی تھی اور شورش پسندوں نے مدینہ والوں کو اس دھوکا میں رکھا کہ ہم لوگ صحابہ کی دعوت پر یہاں آئے ہیں۔ پھر انھوں نے زینہ بہ زینہ ایک ایک منصوبہ انجام دیا یہاں تک کہ نتیجہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ [1] ان مختلف ومتعدد وسائل تخریب کے ساتھ چند دینی شعائر کو بھی اپنی شرپسندی کے لیے ہتھکنڈہ بنایا، مثلاً اللہ اکبر کا نعرہ لگانا اور یہ کہ ہمارا جہاد ظلم کے خلاف ہے، ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘کے لیے ہم میدان میں اترچکے ہیں، صوبائی گورنر وں کو بدلا جائے یا انھیں معزول کیاجائے اور بالآخریہ مطالبہ کہ عثمان رضی اللہ عنہ بھی خلافت سے دستبردار ہوجائیں، اس مطالبہ ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ خلیفۂ وقت کو بعجلت تمام شہید کرنے کی کوشش کی، خصوصاً جب انھیں معلوم ہوگیا کہ خلیفہ کی مدد و حفاظت کے لیے دوسرے شہروں سے معاونین چل چکے ہیں، اس خبر کے ملتے ہی ان کے خون کی حرارت تیز ہوگئی تاکہ خلیفہ کا دائرہ حیات زیادہ سے زیادہ تنگ کردیا جائے اور کسی بھی طرح ان کا کام جلد از جلد تمام کیا جائے۔[2] اس حادثہ رنج والم اور اس کے ماقبل ومابعد کے حادثات میں سبائی تنظیم کا سب سے اہم کردار تھا جس کی قیادت سبائی پارٹی کا موسس عبداللہ بن سبا یہودی کررہا تھا، میں ان شاء اللہ عنقریب عبداللہ بن
Flag Counter