لَکُمْ بَیْنَ یَدَی عَذَابٍ شَدِیْدٍ )) میں تمھیں اس سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں جو تمھارے سامنے آرہا ہے، یہ سن کر ابولہب بولا: تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ آیت نازل ہوئی: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١﴾ (اللہب:1) یعنی ’’دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہوگیا۔‘‘[1] ٭ اثنا عشری شیعہ مذکورہ حدیث سے خلافت علی کی نامزدگی کے لیے جس قدر بھی نص صریح کا دعویٰ کریں اور آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی اور تنہا منصب خلافت کا مستحق ٹھہرائیں اور یہ کہتے رہیں کہ ہمارے دعویٰ کے ثبوت میں دلائل کی بھرمار ہے، لیکن یہ حدیث ان کے دعویٰ و دلیل کا زبردست توڑ ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدد کے لیے اپنی قوم کے لوگوں کو دعوت دی اور اعلان کیا کہ جو شخص ہماری معاونت کے لیے تیار ہوگا وہ میرا بھائی، وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعوت واعلان میں علی رضی اللہ عنہ کو خاص نہیں کیا بلکہ ان کی پیش قدمی پر تین مرتبہ انھیں خاموش ہی اختیار کی، اور جب ان کے علاوہ کوئی مدد کے لیے تیار نہ ہوا تو آپ نے وہ بات کہی جو روایت میں مذکور ہے۔ پس مذکورہ حدیث کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز تخاطب و طریقۂ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اس منصب کے شروع سے مستحق نہیں ہوئے تھے، بلکہ جب آپ کی قوم کے دوسرے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاون بننے کے لیے تیار نہ ہوئے تو آپ اسے علی رضی اللہ عنہ کو دینے پر مجبور ہوئے۔لہٰذا سوچنے کا مقام ہے کہ حدیث میں مذکورہ واقعہ روافض کے اس دعویٰ کا کہاں تک ساتھ دے رہا ہے کہ خلافت بحق علی اللہ کی طرف سے منصوص ہے۔[2] 3۔حدیث ((اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیُّ بَابُہَا )) اور دیگر موضوع احادیث: اس عنوان پر جھوٹی روایات کی بہتات ہے، ان میں سے ایک جابر بن عبداللہ کی یہ روایت بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیُّ بَابُہَا ))’’میں علم کی بستی ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘ بہرحال یہ روایت بھی مطعون فیہ ہے، امام بخاری نے سرے سے اس کا انکار کیا ہے اور یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’لَا اَصْلَ لَہٗ‘‘ اور ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور نووی اور ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ حدیث موضوع یعنی جھوٹی و من گھڑت ہے۔[3] امام البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث ((اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیُّ بَابُہَا فَمَنْ اَرَادَ الْعِلْمَ فَلْیَأْتِ الْبَابَ۔)) موضوع ہے۔ اسے عقیلی نے ’’الضعفائ‘‘ میں، ابن عدی نے ’’الکامل‘‘ میں طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اورحاکم نے بروایت ابن عباس اور ابن عدی اور حاکم نے دوسری جگہ بروایت جابر رضی اللہ عنہ یہ حدیث نقل |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |