Maktaba Wahhabi

1185 - 1201
کروں گا، عمرو بن بکر تمیمی نے کہا: میں عمرو بن عاص کو قتل کروں گا، پھر انھوں نے اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے ایک دوسرے سے پختہ وعدہ اور قسمیں لیں اور یہ طے ہوا کہ جس کے ہدف پر جو آدمی ہے وہ اسے ہرحال میں قتل کرے گا، یا خود بھی مار دیا جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی اپنی تلواریں لیں اور اسے زہرآلود کیا، 17/رمضان کی تاریخ پر سب کا اتفاق ہوا کہ اس دن ہر ایک اپنے اپنے مطلوبہ شخص پر حملہ کرے، پھر یہ سب اپنے اپنے مطلوبہ شخص پر حملہ کی تلاش میں ان کے شہروں میں چلے گئے۔[1] 2۔ ابن ملجم کی روانگی اور قطام بنت شجنۃ سے ملاقات: ابن ملجم المرادی کا تعلق چونکہ بنوکندہ سے تھا، اس لیے وہ کوفہ آیا اور بنوکندہ میں ٹھہرا، لیکن اس نے اس ڈر سے اپنا ارادہ کسی پر ظاہر نہ کیا کہ کہیں راز فاش نہ ہو جائے، چنانچہ ایک دن اس نے قبیلۂ بنی تیم الرَّباب کے چند لوگوں کو دیکھا، علی رضی اللہ عنہ نے تیم الرَّباب کے دس آدمیوں کو جنگ نہروان میں قتل کیا تھا، یہ ان سے ملا اور ان کے مقتولوں کا ذکر چھیڑ دیا، اسی خاندان کی ایک انتہائی حسین و جمیل عورت قطام بنت شجنۃ تھی، اس کے باپ اور بھائی کو بھی علی رضی اللہ عنہ نے جنگ نہروان میں قتل کیا تھا۔ قطام کو دیکھ کر ابن ملجم اس پر دل و جان سے فریفتہ ہوگیا اوربھول گیا کہ میں یہاں کس مقصد سے آیا ہوں، پھر اس نے اسے نکاح کا پیغام دے دیا، قطام نے کہا: میں تم سے اس وقت تک شادی نہ کروں گی جب تک کہ تم میرے دل کو ٹھنڈا نہ کرو گے۔ ابن ملجم نے پوچھا: کس چیز سے تمھارے دل کو ٹھنڈک ملے گی؟ اس نے کہا: مہر میں تین ہزار درہم، ایک غلام، ایک لونڈی اور علی بن ابی طالب کا قتل۔ ابن ملجم نے کہا: ٹھیک ہے یہی تمھارا مہر رہے گا، لیکن قتل علی کا جو تو نے ذکر کیا تو میں نہیں سمجھتا کہ تم مجھے چاہتے ہوئے اس کی خواہاں ہو۔ قطام نے کہا: کیوں نہیں، میں اس کا سر چاہتی ہوں اگر تمھارا وار نشانہ کو پہنچ گیا اور بچ نکلے تو تم نے اپنے آپ کو اور مجھے سکون پہنچایا اور پھر ہم دونوں آرام کی زندگی بسر کریں گے اور اگر تم قتل کردیے گئے تو آخرت کا عیش و آرام تمھارے لیے اس دنیا کے عیش و آرام سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ ابن ملجم نے کہا: میں تو خود ہی اس شہر میں علی کو قتل کرنے کے لیے آیا تھا، ٹھیک ہے تمھاری شرط پوری ہوگی۔ قطام نے کہا: میں چاہتی ہوں کہ اس معاملہ میں کوئی تمھاری پشت پناہی کرے اور تمھیں تمھارا کام انجام دینے میں سہارا دے، پھر اس نے اپنی قوم تیم الرباب کے ایک آدمی وردان کے پاس اپنا آدمی بھیجا، وہ آیا اور اس نے اس سلسلہ میں گفتگو کی، وردان نے اس کی بات قبول کرلی، اس کے بعد ابن ملجم قطام کے پاس سے اٹھ کر قبیلۂ اشجع کے ایک شخص شبیب بن بجرہ کے پاس آیا اور اس سے پوچھا: کیا تم دنیا اور آخرت کا شرف حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے پوچھا: وہ کیسے؟ ابن ملجم نے کہا: علی بن ابی طالب کو قتل کرکے۔ شبیب نے کہا: تیری ماں تجھے گم کرے، تو نے تو انتہائی برا کام سوچ رکھا ہے، تم علی کو کیسے قتل کرسکتے ہو؟ ابن ملجم نے کہا: میں مسجد میں چھپ کر بیٹھا رہوں گا، جب علی فجر کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں آئیں گے تو
Flag Counter