کو سنبھالا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورآپ سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا: آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ جب تمھارے بطن سے ولادت ہوگئی تو حلال ہوگئی، پھر آپنے مجھ سے کہا: اگر خواہش رکھتی ہو تو شادی کرلو۔[1] ممکن ہے علی رضی اللہ عنہ کو سبیعہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا علم نہ رہا ہو، اس لیے کہ آپ کا فتویٰ اس کے خلاف تھا، ورنہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کے خلاف فتویٰ نہ دیتے۔[2] 10۔ اہل عرب اور ان کے مضافات کے باشندوں کے عادات و خصائل سے واقفیت: نزول قرآن کریم کے وقت اہل عرب او ران کے مضافات میں بسنے والے یہودو نصاریٰ کے عادات و خصائل کی معرفت سے قرآن فہمی کے بہت سے پہلو آسان ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اسی زمانہ میں پرورش پائی اور وہ بہت ساری عادات کہ جن سے قرآن نے منع کیا یا جنھیں باقی رکھا، انھیں آپ نے اچھی طرح پہچانا، اس معرفت کی مثال ابن ابی حاتم سے مروی وہ روایت ہے کہ جب ابن وائل اور ابوالفرزدق کے مابین فخر و مباہات کا دور شروع ہوا او ران دونوں میں سے ہر ایک نے 100 سو، 100 سو اونٹ نحر کیے تو علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر نکلے اور اعلان کرنے لگے کہ اے لوگو! ان اونٹوں کو نہ کھانا، کیوں کہ یہ غیر اللہ کے لیے ذبح کیے گئے ہیں۔ پس علی رضی اللہ عنہ نے اپنے وقت میں اہل عرب کی مروجہ عادات سے یہ جان لیا کہ یہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ شیطان کے لیے ہے، اس لیے آپ نے ان دونوں کا گوشت کھانے سے منع کیا اور اللہ کے اس فرمان سے استدلال کیا: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ (المائدۃ:3) ’’تم پر مردار حرام کیا گیا ہے اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے ۔‘‘ [3] 11۔ قوت فہم اور معلومات کی وسعت: قوت فہم اور معلومات کی وسعت علی رضی اللہ عنہ کی ایک امتیازی صفت تھی، جس میں آپ کو شہرت حاصل ہوئی، اس کی بہت سی مثالیں ہیں، مثلاً ابن جریر نے روایت کیا ہے کہ ایک خارجی نے علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت پکارا جب آپ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، پھر اس نے اللہ کے اس فرمان کی تلاوت کی: وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٥﴾ (الزمر:65) ’’اور بلا شبہ یقینا تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقینا تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |