Maktaba Wahhabi

225 - 1201
جنگ ارتداد میں سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی مکمل تائید و مدد : سیّدناعلی رضی اللہ عنہ زندگی بھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سچے خیر خواہ اور مشیر تھے، ہر معاملہ میں اسی بات کو ترجیح دیتے جس میں اسلام اورمسلمانوں کی بہبودی اور بہتری مضمر ہو، اس کا انتہائی روشن، ناقابل انکار کھلا ثبوت روز روشن کی طرح عیاںہیکہ مسلمانوں کا اتحاد اور خلافت کی بقا سے زیادہ کوئی شے ان کو عزیز نہ تھی، یہ واقعہ ہے کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مرتدین سے جنگ کرنے اور ان کے خلاف فوجی کارروائیوں کی بذات خود قیادت کرنے کے خواہاں تھے، اور اس سلسلہ میں ذوالقصہ جانے کے لیے پابہ رکاب تھے جو ایک انتہائی خطر ناک اقدام تھا، جس سے نہ صرف ان کی ذات بلکہ پورے اسلامی وجود کو خطرہ لاحق تھا۔ [1] ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ ذوالقصہ کے لیے تیار ہوئے، اور اپنی سواری (اونٹنی) پر بیٹھ گئے تو سیّدناعلی رضی اللہ عنہ نے اس کی مہار پکڑ لی اور کہا: اے خلیفۂ رسول کدھر جانے کاارادہ ہے؟ میں آپ کے لیے وہی کہتا ہوں جو احد کے موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا: ((لَمْ سَیْفُکَ وَلَا تَفَجِّعْنَا بِنَفْسِکَ، وَارْجِعَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَوَاللّٰہِ لَئِنْ فَجَّعْنَابِکَ لَا یَکُوْنَ لِلْاِسْلَامِ نَظَامُ أَبَدًا۔)) ’’اپنی تلوار نیام میں رکھو اور ہم سب کو اپنی دائمی جدائی کا صدمہ نہ دو اور مدینہ واپس لوٹ جاؤ، اللہ کی قسم! اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ا سلام کا شیرازہ ہمیشہ کے لیے بکھر جائے گا۔‘‘ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس پلٹ گئے۔ [2] علی رضی اللہ عنہ کا -اللہ کی پناہ- اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی خلافت کی طرف سے دل صاف نہ ہوتا تو ان کے لیے یہ سنہری موقع تھا جس سے بآسانی فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا، وہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتے، کیا تعجب تھا کہ ان کا رشتہ حیات ہی منقطع ہوجاتا اور آپ کے لیے فضا ہموار ہوجاتی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (خاکم بدہن)۔ اگر واقعی وہ دل سے ابوبکر کو ناپسند کرتے اور ان سے گلو خلاصی چاہتے تھے تو وہ کسی کو اشارہ کردیتے کہ ان کا کسی ترکیب سے کام ہی تمام کردے جیسا کہ یہ سیاسی لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔[3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ مرتدین سے جنگ لڑی جائے، چنانچہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوالحسن! مرتد ین کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ تو علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان سے جو کچھ وصول کرتے تھے اگرکچھ بھی آپ نے لینا چھوڑ دیا، تو آپ سنت کی خلاف ورزی کریں گے۔ انھوں نے کہا: اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں تو میں ان سے ضرور جنگ لڑوں گا اگرچہ وہ ایک عقال (بکری کا چھوٹا بچہ، یارسی) ہی روکنا چاہیں۔ [4]
Flag Counter