Maktaba Wahhabi

223 - 1201
طاقت سے ان کے خلاف لڑتا، اگر چہ میرے پاس میری ایک چادر ہی رہ جاتی، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قتل نہیں کیے گئے اور نہ ہی اچانک آپ کی موت ہوئی، بلکہ کئی دنوں تک آپ بیمار پڑے رہے، مؤذن آپ کے پاس آتے تھے اور آپ انھیں اذان دینے کا حکم دیتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر کو لوگوں کی امامت کرنے پر مامور کرتے، وہ نمازپڑھاتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ان پر نگاہ رکھتے، حتی کہ ایک مرتبہ آپ کی بیویوں میں ایک بیوی (عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ ابوبکرکی جگہ پر دوسرے کو امامت کی ذمہ داری سونپ دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے سخت ناراض ہوئے، اور اس پر کوئی توجہ نہ دی، اور فرمایا: ((أَنْتُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسَفَ مُرُوْا أَبَابَکْرٍ فَلْیُصَلِّ النَّاسَ۔)) ’’تم سب یوسف والیاں ہو، ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ‘‘ چنانچہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور ہم نے اپنے احوال وامور پر غور کیا، تو دنیا میں اپنی قیادت کے لیے ایسے شخص کو ہم نے منتخب کیا جسے اللہ کے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے دین کے لیے پسند کرچکے تھے، نماز اسلام کی بنیاد اور روح ہے، یہ سب سے عظیم فریضہ ہے، اور دین کا ایک ستون ہے، ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کرلی، آپ خلافت کے اہل تھے، ہم میں کسی دو شخص نے بھی آپس میں اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیا، نہ ہی آپس میں ٹکڑائے، نہ ہی کسی سے دشمنی کی، میں نے ابوبکر کو ان کا حق دیا، ان کی اطاعت گزاری کو اچھی طرح پہچانا، ان کے لشکروں میں شریک ہو کر لڑا، جب مجھے کوئی چیز دیتے تھے میں لے لیتا، اور جب کسی لڑائی بھیجتے تو میں ان کے لیے لڑتا، اور ان کے سامنے اپنے کوڑے سے حدود نافذ کرتا۔[1] کوفہ میں دور انِ خطبہ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کی زبان سے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی مدح ومنقبت: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ فرمایا: ’’پھر مسلمانوں نے اپنی مکمل رضامندی سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کی، آل عبدالمطلب میں سب سے پہلے میں نے اس میں حصہ لیا۔ [2] بعض روایات میں اگر چہ صراحت نہیں، لیکن اشارتًا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی مرحلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کی تھی، چنانچہ ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اور تولیت خلافت سے متعلق اپنا عذر پیش کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں کبھی بھی خواہ دن ہو یا رات امارت کا خواہاں نہیں تھا، نہ اس کا لالچ تھا اور ظاہر وباطن کسی بھی
Flag Counter