Maktaba Wahhabi

654 - 1201
سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اسی مرتبہ کے قائل رہے ہیں۔ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ مجھے عائشہ کی صحبت ملی ہے، میں نے کسی قرآنی آیت، فریضہ، سنت اور شعر کے بارے میں ان سے زیادہ علم رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ اسی طرح تاریخ عرب، انساب عرب، قضاء اور طب وغیرہ میں بھی ان سے بڑا کسی کو نہیں جانا۔ [1] امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ جب ان کا ذکر چھیڑ تے تو ان کے علم وفقہ پر حیرت کا اظہار کرتے اور فرماتے: ’’ تربیت نبوی کو تم لوگ کیا جانو؟‘‘ اور عطاء رحمۃ اللہ علیہ کہتے تھے: ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں میں سب سے زیادہ علم و فقہ کی مالک اور عوامی معاملات میں سب سے عمدہ مشورہ دینے والی تھیں۔‘‘[2] قبیلہ بنو تمیم کے سرداراور عرب کے فصحاء و بلغاء کی ممتاز شخصیت احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد خلفاء کے خطبات سنے ہیں، لیکن کسی کی زبان سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح بہتر ین اور باوزن کلمات نہیں سنے اور معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کہتے تھے۔[3] ان تمام فضائل ومناقب کی حامل عائشہ رضی اللہ عنہا جب بصرہ کے لیے روانہ ہوتی ہیں، تو امہات المومنین رضی اللہ عنہن انھیں الوداع کہنے آتی ہیں، گویا عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا یہ پیغام ہے کہ ہم آپ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور ہم آپ کی حمایت میں ہیں۔[4] چشمہ حوأب سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گزر: متعدد صحیح اسناد سے یہ ثابت ہے کہ بصرہ جاتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کا گزر چشمۂ ’’حوأب‘‘سے ہواتھا۔ چنانچہ یحییٰ بن سعید بن قطان، اسماعیل بن ابی خالد سے روایت کرتے ہیں اور وہ قیس بن حازم سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب رات میں بنو عامر کے چشمہ سے گزر رہی تھیں تو کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں، آپ نے پوچھا: یہ کون سا چشمہ ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ چشمۂ ’’حوأب‘‘ ہے۔ آپ کہنے لگیں: اب میں یہیں سے لوٹنے کا سوچ رہی ہوں، کچھ لوگوں نے کہا: آپ ایسا نہ کریں، چلیں تاکہ مسلمان آپ کو دیکھیں اور شاید اللہ تعالیٰ ان کے اختلاف کو ختم کردے، آپ کہنے لگیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھ سے کہا تھا: ((کَیْفَ بِاِحْدَاکُنَّ تنبح عَلَیْہَا کِلَابُ الْحَوأبِ۔))[5] ’’’اس وقت کیا ہوگا جب تم (بیویوں)میں سے کسی ایک پر چشمۂ حواب کے کتے بھونکیں گے۔‘‘ شعبہ کی سند سے اس روایت کے الفاظ بعینہٖ یہی ہیں، البتہ اس کے آخر میں ہے کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے
Flag Counter