کی بجائے بصرہ کا رخ کیے جانے کے فیصلہ کو لے کر ہوا۔ تاہم ام المومنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بصرہ جانے کو تیار تھیں، لیکن ان کے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر انھیں جانے سے روکا۔ گویا برضا و رغبت نہیں بلکہ اپنے بھائی کے دباؤ میں رک گئی تھیں[1] اور اس کا اظہار عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ میں کیا : ’’عبداللہ میرے اور روانگی کے در میان حائل ہوگئے، اس لیے میں شرکت سے معذرت خواہ ہوں۔‘‘[2] کتب تاریخ میں مروجہ روایات یہ بتاتی ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بصرہ جانے کے سلسلہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھیوں کی رائے سے متفق نہ تھیں، بلکہ وہ علی رضی اللہ عنہ جیسا موقف رکھتی تھیں۔[3]حالانکہ صحت کے قریب ترین روایات یہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنے فرزند عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کوعلی رضی اللہ عنہ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ: ’’ اللہ کی قسم! یہ مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہے۔ یہ آپ کے ساتھ جائے گا اور لڑائیوں میں شریک رہے گا، چنانچہ وہ گئے اور مستقل طور سے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔ ‘‘[4] یہ ایسی روایت ہے کہ اگر ہم اس کی گہرائی میں جائیں تو کسی اعتبار سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا اپنے بیٹے کو بھیجنے کا مطلب یہ تھا کہ اصلاح بین المسلمین کے بارے میں آپ دیگر امہات المومنین کے خلاف تھیں۔ خود عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھی یہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ہمارا مقصد علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت، یا ان کی خلافت سے بغاوت ہے جیسا کہ ہم اس کے واضح دلائل دیکھ اور پڑھ چکے ہیں اور جیسا کہ مابعد کے واقعات اسی بات کی تاکید کرتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی صحیح روایت میں یہ بات نہیں ملتی کہ انھوں نے اصلاح بین المسلمین کی جدو جہد میں امہات المومنین کے اجماع سے کبھی بغاوت کی ہو۔[5] امہا ت المومنین کو معلوم تھاکہ مسلمانوں کے درمیان صلح و مصالحت کے لیے ہمارا نکلنا فرض کفایہ ہے، کیونکہ اس کا مطالبہ تمام مکلفین سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ لوگ اس کے پابند ہیں جن میں صلح ومصالحت کرنے کرانے کی صلاحیت ہو اور بلاشبہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں مقام ومرتبہ، عمر کی پختگی، اور علم قدرت ہر اعتبار سے مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کی پوری صلاحیت موجود تھی اور تمام مسلمان اس بات پر متفق تھے کہ آپ رضی اللہ عنہا ان میں سب سے زیادہ فقہ وبصیرت کی مالک ہیں۔[6] صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عام معاملات پر بھی آپ کی نگاہ ہوتی تھی۔ عربی تاریخ اور انساب عرب کے ماہر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں نشو ونما پانے اور اسلامی مملکت کی سیاسی بنیادیں رکھنے والے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں زندگی گزارنے کی وجہ سے آپ کی ذات ایک ہمہ گیر ثقافتی شخصیت کی شکل میں نکھر کر سامنے آئی تھی، مزید برآں آپ خلیفہ اوّل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ہر دور میں تمام علمائے شریعت |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |