’’میرا دل بیدار ہے اور میری عقل درست ہے، اور میرے منہ میں تیغ براں کی طرح چلنے والی بے باک زبان ہے۔‘‘ خلاصہ یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی شخصیت ایک عالمِ ربانی، تجربہ کار و ماہر قائد اور امیرِ عادل کی آئینہ دار ہے، اپنے دور کے واقعات پر اثر انداز ہونے والوں میں سے آپ بھی ایک ہیں اور وارثان انبیاء کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ کوفہ: جس وقت سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آپ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، جب علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے انھیں ان کے منصب پر باقی رکھا، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے باشندگان کوفہ سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت لی، پھر اہل کوفہ کے موقف سے آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بذریعہ خط مطلع کیا کہ ان کی اکثریت نے بیعت کرلی ہے۔[1] چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ جب مدینہ سے عراق کے لیے روانہ ہوئے تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بارے میں خاص طور سے پوچھتے رہے، دوران سفر راستہ میں کوفہ کا ایک آدمی آپ سے آملا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا: اس نے کہا: اگر آپ صلح کا ارادہ رکھتے ہیں تو ابوموسیٰ اس کے لیے بہت مناسب ہیں، اور اگر لڑائی کا ارادہ رکھتے ہیں تو ابوموسیٰ اس لائق نہیں ہیں، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ میں تو اصلاح کا خواہاں ہوں الا یہ کہ کوئی ہم پر کارروائی کرے، اس آدمی نے کہا: مجھے جو خبر دینا تھی دے دی۔[2] بعد میں ایسا ہی ہوا، صلح ومصالحت اور مسلمانوں کے درمیان عدم قتال کی طرف ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رجحان صاف ظاہر ہوگیا۔ معرکۂ جمل سے قبل کوفہ پہنچ کر علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر، عمار بن یاسر اور حسن بن علی وغیرہم کو مختلف وفود کی شکل میں اہل کوفہ کے پاس بھیجا کہ وہ انھیں جنگ کے لیے تیار کریں، جس کی تفصیل عنقریب آرہی ہے۔ اہل کوفہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا موقف معلوم کیا اور جنگ پر جانے سے متعلق ان سے مشورہ لیا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آخرت کا راستہ یہ ہے کہ تم کہیں مت جاؤ، ٹھہرے رہو اور دنیا کا راستہ یہ ہے کہ تم جنگ کے لیے جاؤ، مزید کہنے کی ضرورت نہیں تم لوگ خوب سمجھ دار ہو۔[3] اہل کوفہ اور حسن رضی اللہ عنہ کے درمیان متعدد اور طویل گفتگو کے بعد کچھ اہل کوفہ حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے، بعض روایات میں ہے کہ ان کے ساتھ تقریباً نو ہزار لوگ تھے۔[4] متعدد روایات سے اشارہ ملتا ہے کہ جنگ جمل سے کچھ پہلے اسی دوران کوفہ سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ولایت ختم ہوگئی، جب کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اشتر جو کہ علی رضی اللہ عنہ کا ایک فوجی کمانڈر تھا، ابوموسیٰ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |