Maktaba Wahhabi

923 - 1201
پس پہلی آیت میں لفظ شیعہ قوم کے معنی میں ہے اور دوسری آیت میں ایک ہم خیال اور ہم مقصد جماعت کے معنی میں ہے۔ شیعہ کا اصطلاحی مفہوم: بنیادی طور سے شیعہ کا اصطلاحی مفہوم ان کی نشو و نما اور اعتقادی مراحل سے مربوط ہے، کیونکہ یہ بات مشاہدہ میں رہی ہے کہ شیعی عقائد و افکار میں برابر تبدیلیاں اور اتار چڑھاؤ ہوتا رہا ہے۔ تشیع کا جو معنی شروع اسلامی دور میں تھا وہ بعد کے تشیع سے مختلف ہے، چنانچہ شروع اسلامی دور میں صرف وہ لوگ شیعہ کہے جاتے تھے جو علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم مانتے تھے۔[1] اسی لیے کہا گیا ’’شیعی و عثمانی‘‘ یعنی یہ شیعہ ہے اور یہ عثمانی ہے۔ ایسی صورت میں شروع اسلامی دور کے شیعہ کی تعریف ہے: علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم ماننے والی جماعت۔[2] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’پہلے کے شیعہ جو کہ علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھے وہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو علی رضی اللہ عنہ سے افضل مانتے تھے۔‘‘ [3] اور شریک بن عبداللہ کہ جن کو تشیع سے متصف کیا جاتا ہے، انھوں نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر علی ( رضی اللہ عنہ ) کو فضیلت دینے والوں کو ’’شیعہ‘‘ کہنے سے منع کیا ہے، کیونکہ یہ عقیدہ علی رضی اللہ عنہ سے متواتر ثابت شدہ آثار و اقوال کے خلاف ہے اور تشیع کامطلب ہے تائید و متابعت کرنا نہ کہ مخالفت اور انکار۔[4] امام ابن بطہ نے اپنے استاذ ابوالعباس بن مسروق سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن زیاد بن جریر کا بیان ہے کہ ابواسحاق السبیعی کوفہ آئے تو شہر بن عطیہ نے ہم لوگوں سے کہا: چلو ہم سب ان کے پاس چلیں، چنانچہ ہم لوگ گئے اور بات چیت کی۔ ابواسحاق السبیعی نے بتایا کہ جس وقت میں کوفہ سے گیا تھا اس وقت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت اور خلافت سے متعلق ان دونوں کی تقدیم پر کوئی شک نہ کرتا تھا اور آج میں آیا ہوں تو دیکھ رہا ہوں کہ لوگ کیا کیا کہہ رہے ہیں، نہیں اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ یہ لوگ کیا کہتے ہیں۔[5] علامہ محب الدین الخطیب اس واقعہ کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ مذہب تشیع کے دور ارتقاء کی تحدید کے لیے یہ ایک اہم تاریخی عبارت ہے، کیونکہ ابواسحاق السبیعی کوفہ کے شیخ اور وہاں کے بڑے عالم تھے۔[6] امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آپ کی شہادت سے تین سال قبل پیدا ہوئے اور ایک لمبی عمر پاکر 127ھ میں اپ کی وفات ہوئی۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آپ بچے تھے، اپنے بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے اوپر اٹھایا یہاں تک کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھ لیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے، لہٰذا اگر ہم یہ جان لیں کہ آپ نے کوفہ کب چھوڑا تھا اور دوبارہ کب وہاں واپس آئے اور زیارت کی،
Flag Counter