فروخت کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ ام موسیٰ سے روایت ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس مال غنیمت میں ملے ہوئے عجمی کفار کا سونے کا ایک برتن لایا گیا، آپ نے اسے توڑ کر مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا، تو زمینداروں میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اگر آپ اسے توڑتے ہیں تو ایک اچھی قیمت ضائع کرتے ہیں، کیوں نہ ہم آپ کو اس کی مہنگی قیمت دے دیں، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس ملکیت کو اللہ نے تمھارے ہاتھوں سے چھین لیا ہے اسے ہم تمھیں واپس نہیں کرسکتے، پھر آپ نے اسے توڑ کر لوگوں میں تقسیم کردیا۔[1] آپ نے ایسا اس لیے کیا تھا تاکہ وہ سامان مفتوحہ قوم کو ماضی کی شوکت نہ یاد دلائے یا انھیں اس سے کوئی فائدہ نہ پہنچے۔ 6۔ کاریگروں کو ضامن ٹھہرانا: کاریگروں پر سامان کی حفاظت کی ضمانت ہے، تاکہ لوگوں کامال ضائع نہ ہو، علامہ شاطبی فرماتے ہیں کہ خلفائے راشدین کا فیصلہ ہے کہ کاریگر سامان کا ضامن ہوگا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کے لیے اسی میں مصلحت ہے۔[2]اس لیے کہ اس میں شریعت کا ایک عظیم مقصد یعنی مال کو ضائع ہونے سے بچانا ہوتا ہے۔[3] مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے درزی، رنگریز اور اس جیسے پیشہ کے لوگوں کو ضامن قرار دیا تاکہ لوگوں کا سامان محفوظ رہ سکے۔[4] 7۔ دیگر اقوام سے عقد ذمہ اور ان سے محصول کی وصولی میں سختی سے پرہیز: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مشرکین عرب سے کوئی چیز قابل قبول نہیں، وہ اسلام لائیں یا تلوار کے لیے تیار رہیں، رہے مشرکین عجم، تو ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا اور اہل کتاب عرب کے ہوں یا عجم کے، اگر وہ اسلام نہیں لاتے اور ہمارے ذمہ میں رہنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم ان سے جزیہ لیں گے۔[5] نیز آپ سے مروی ہے کہ انھوں نے عقد ذمہ اس لیے قبول کیا ہے تاکہ ان کا مال ہمارے مال کی طرح اور ان کا خون ہمارے خون کی طرح محفوظ ہوجائیں۔[6] آپ ان سے جزیہ وغیرہ وصولنے میں نرمی برتتے اور مختصر مقدار میں وصول کرتے، عبدالملک بن عمیر کا بیان ہے کہ مجھے قبیلہ ثقیف کے ایک آدمی نے بتایا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مجھے عامل بنایا اور نصیحت کی کہ ایک درہم بھی وصولنے میں کسی پر کوڑا نہ اٹھانا، نہ جزیہ وصول کرنے کے لیے ان کا غلہ، یا سردی یا گرمی کا کپڑا فروخت کرنا، نہ ان کے ایسے جانور فروخت کرنا جسے وہ کام میں لاتے ہوں نیز درہم طلبی (جزیہ کی وصولی) میں کسی کو کھڑا مت رکھنا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اے امیر المومنین تب تو میں جس طرح خالی ہاتھ آپ کے پاس سے جاؤں گا اسی طرح واپس آؤں گا۔ آپ نے فرمایا: اگرچہ تم ایسے ہی لوٹو جیسے جارہے ہو، بس تمہیں میرایہی حکم ہے کہ ان کی زائد |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |