Maktaba Wahhabi

713 - 1201
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا مشورہ دیا، تاکہ وہاں کے عدل پرور نجاشی بادشاہ کی حفاظت میں اطمینان سے رہ سکیں۔ چنانچہ وہاں کی سکونت ان کے لیے باعث خیر واطمینان ثابت ہوئی اور بادشاہ بھی نہایت خیرخواہ حاکم نکلا۔ اس طرح یہ مہاجرین صحابہ وہاں امن و اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے کہ اسی دوران ایک حبشی نے نجاشی کا تخت الٹنے کی کوشش کی، مسلمان یہ صورت حال دیکھ کر سخت غمگین ہوئے اور یہ خطرہ محسوس کرنے لگے کہ کہیں نجاشی کو شکست نہ ہوجائے اور تختہ الٹنے والا کامیاب نہ ہوجائے، پھر صحابہ کی اس مقدس جماعت کے حقوق واحترام کو وہ نہ جان سکے۔ اس لیے ان صحابہ کرام نے سوچا کہ کیوں نہ دریائے نیل کی ساحل پر حبشہ کے اقتدار کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ کی خبریں معلوم کی جائیں۔[1] ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ پھر صحابہ کرام نے آپس میں کہا کہ کون ہے جو میدان جنگ تک جائے اور واپس آکر وہاں کے حالات سے ہمیں مطلع کرے؟ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: میں یہ ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ صحابہ نے کہا: ٹھیک ہے تم جاؤ، آپ اس وقت اس جماعت میں سب سے نوجوان تھے، چنانچہ انھوں نے ایک مشکیزہ میں آپ کے لیے ہوا بھر دی اور آپ نے اسے اپنے سینے سے باندھ لیا اس پر تیرتے ہوئے دریا کے دوسرے کنارے پر جہاں جنگ لڑی جارہی تھی پہنچ گئے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اِدھر ہم اللہ تعالیٰ سے برابر نجاشی کی فتح اور دشمن کی شکست کے لیے دعائیں کر رہے تھے اور ہمیں توقع تھی کہ بالآخر یہی ہوگا، اتنے میں دور سے زبیر کے کپڑوں کی چمک نظر آئی، وہ دوڑتے ہوئے آرہے تھے اور کہہ رہے تھے اے لوگو! خوش ہو جاؤ ، نجاشی کو فتح ہوگئی اور اللہ نے اس کے دشمن کو ہلاک کردیا، حبشہ کا اقتدار نجاشی کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔[2] جب زبیر رضی اللہ عنہ حبشہ سے لوٹ کر مکہ آئے تو آغوش نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں زندگی بسر کرنے لگے اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کی تعلیمات اور اس کے اوامر و نواہی کو سیکھتے رہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کی تو زبیر رضی اللہ عنہ قافلۂ ہجرت میں شامل رہے۔ 3۔غزوۂ بدر میں: زبیر رضی اللہ عنہ ایک پیش پیش رہنے والے شہ سوار اور نڈر بہادر تھے، کسی غزوہ سے پیچھے نہیں رہے، وہ آپ کو ہر معرکہ میں نظر آئیں گے۔ آپ کی بہادری محیر العقول اور جواں مردی بے مثال تھی، خلوص و للہیت کے پیکر اور اسلام کی سربلندی کے لیے قربان ہوجانے کو تیار رہتے تھے۔ آپ نے اللہ کے راستہ میں بہت کچھ لٹایا، اپنی جان اور مال اللہ کے لیے وقف کردیا تھا، جس کے بدلہ میں اللہ نے آپ کو دنیا و آخرت میں اعزاز بخشا، غزوۂ بدر کے موقع پر زرد رنگ کا عمامہ سر پر اور اس کا پلہ منہ پر لپیٹے ہوئے تھے۔ عروہ کا بیان ہے کہ بدر والے دن زبیر کے سر پر زرد رنگ کا عمامہ تھا، جبریل علیہ السلام اس موقع پر زبیر رضی اللہ عنہ کی
Flag Counter