بات سمجھ میں آتی ہو کہ آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخلاق و کردار کو ہدف ملامت بنایا ہو، یا آپ کی شان میں گستاخی کی ہو، آپ نے ایک طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مشورہ دیا کہ اللہ نے آپ کے لیے راستہ کھول رکھا ہے، تو دوسری طرف اس کے فوراً بعد خیرخواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: اورآپ باندی سے پوچھ لیں وہ آپ کو حقیقت حال بتائے گی۔[1] گویا آپ نے جدا کرنے سے پہلے حقیقت حال معلوم کرلینے کا مشورہ دیا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا جو کہ بیشتر اوقات میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہتی تھی، اور اس نے بتایا اور یقین دلایا کہ میں عائشہ کے بارے میں صرف خیر ہی جانتی ہوں۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن باہر نکلے، اور عبداللہ بن ابی سے بدلہ لینے پر مسلمانوں کو ابھارتے ہوئے فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ یَعْذُرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِيْ أَذَاہُ فِيْ أَہْلِ بَیْتِيْ، فَوَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَہْلِيْ إِلَّا خَیْرًا۔)) [2] ’’اے مسلمانو! کون ہے جو اس شخص سے میرا بدلہ لے جس نے میرے گھر والوں (بیوی) کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچائی ہے، اللہ کی قسم! میں اپنی بیوی میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھتا۔‘‘ اگر غور کیا جائے تو علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مفاد میں نظر آتا ہے، اس لیے کہ ان کے مشورہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے دریافت کیا تو اپنی بیوی کے بارے میں آپ کو پہلے سے جس خیر کی توقع تھی اس میں مزید اطمینان و یقین حاصل ہوگیا۔[3] ایسی بات ہرگز نہیں ہے کہ واقعۂ افک میں علی رضی اللہ عنہ کے موقف نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کبیدہ خاطر کیا ہو اور آپ اس کی وجہ سے علی پر ناراض رہی ہوں، یا ان کے خلاف کینہ و نفرت کی بنیاد پر انھیں قصداً قتل عثمان میں ملوث کردیا ہو۔اور پھر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ آپ کے خلاف علم بغاوت لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ہوں، جیساکہ روافض شیعہ کی جھوٹی روایات سے متاثر بہت سے مؤلفین کا خیال ہے۔ جنگ جمل پر احساس ندامت: امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ اسی طرح بیشتر گزرے ہوئے مسلمانوں نے اپنے باہمی قتال و جدال پر احساس ندامت ہوا، چنانچہ طلحہ رضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور زبیر و علی رضی اللہ عنہما وغیرہ بھی نادم ہوئے۔ جنگ جمل کے دن ان لوگوں نے لڑائی کا ارادہ نہیں کیا تھا، پس اچانک اور غیرارادی طور سے یہ حادثہ رونما ہوا تھا۔‘‘[4]اس کے دلائل یہ ہیں کہ: ٭ جب امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ تلواریں لوگوں کو کاٹ رہی ہیں تو فرمایا: کاش کہ میں آج سے بیس سال پہلے مرگیا ہوتا۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |