Maktaba Wahhabi

709 - 1201
بہرحال آپ رضی اللہ عنہا نے شروع رجب 36ھ بروز ہفتہ بصرہ سے کوچ کیا، کئی میل تک علی رضی اللہ عنہ انھیں چھوڑنے آئے اوراپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ ایک دن تک ام المومنین کا ساتھ دینے کے بعد واپس آئیں۔[1] عائشہ رضی اللہ عنہا کے تئیں علی رضی اللہ عنہ کے اس کریمانہ برتاؤ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کتنے عمدہ انداز میں نبھایا کہ ((اِنَّہُ سَیَکُوْنُ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ عَائِشَۃَ أَمْرٌ)) تمھارے اور عائشہ کے درمیان تلخی ہوسکتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے حیرت سے پوچھا: اے اللہ کے رسول مجھ سے اور ان سے؟ آپ نے فرمایا: نعم، ہاں۔ علی رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا: میرے اوران کے درمیان؟ آپ نے فرمایا: نعم، ہاں۔ تب علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول تب تو میں سب سے بدبخت نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا، وَ لٰکِنْ إِذَا کَانَ ذَلِکَ فَارْدُدْہَا إِلَی مَأْ مَنِہَا۔)) [2] ’’نہیں، جب وہ صورت پیش آجائے گی تو عائشہ کو ان کے گھر تک پہنچا دینا۔‘‘ واضح رہے کہ اس مقام پر کچھ لوگ یہ کہہ کر غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ واقعۂ افک میں علی رضی اللہ عنہ کے موقف سے کبیدہ خاطر تھیں اور اس کا انتقام لینا چاہتی تھیں، کیونکہ جب منافقین نے آپ رضی اللہ عنہا کی دامن عزت کو نشانہ بنایا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جدا کرنے کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تھا، تو آپ نے مشورہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کے لیے راستہ کھول رکھا ہے، ان کے علاوہ بہت سی عورتیں ہیں، اوراگر آپ باندی سے دریافت کریں تو وہ آپ کو سچ سچ بتائے گی۔[3] حالانکہ آپ کا یہ مشورہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی رنجش کی بناپر نہ تھا، بلکہ آپ نے قصداً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو کو ترجیح دی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی غیرت مند انسان تھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک بے ہودہ تہمت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدید رنج و غم جھیل رہے ہیں، تو آپ نے سوچا کہ فوری طور سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی جدائی آپ کے رنج و الم کو ہلکا کرسکتی ہے، اس لیے مناسب ہے کہ جب تک عائشہ کی براء ت ثابت نہ ہو جائے انھیں اپنی زوجیت سے جدا کر دیں۔ علی رضی اللہ عنہ کے اس مشورہ سے ایک اصولی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ یہ کہ دو غلطیوں میں سے بڑی غلطی کو دور کرنے کے لیے چھوٹی غلطی کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔[4] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جدا کردیں، آپ اس نتیجہ پر اس وقت پہنچے جب دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت الجھن سے دوچار ہیں، بنابریں آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین خاطر کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے لیے مکمل خیرخواہی کا ثبوت دیا۔[5] دوسری طرف علی رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں استعمال کیا جس سے یہ
Flag Counter