جائے فرار ہے۔[1] 6: منظر کشی: آپ نے ایک ناقابل انکار حقیقت کو جو مستقبل میں واقع ہونے والی ہے ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا تاکہ سامع کے سامنے صورت حال کی مکمل منظر کشی ہوجائے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’تم موت کے پنجے میں ہو، مٹی کا گھر تمھیں دبوچ چکا ہے اور نظام دنیا کو درہم برہم کرنے والی گھڑی آچکی ہے۔‘‘ 7۔ لطیف و سلیس جملوں کا استعمال ایسے انداز میں ہو جو سامعین کے جذبہ شوق کو ابھارے، انھیں اکتاہٹ اور نفرت نہ محسوس ہو۔[2] امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خطب و مواعظ کے یہ چند نمونہ تھے جنھیں لوگوں میں شہرت ملی اور انسانوں کی تربیت، تزکیہ و تطہیر نفس میں ان کا اہم کردار رہا اور اس کے نہایت عمدہ اثرات نسل در نسل آج تک ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور شعر و شاعری جن روایات تک ہماری رسائی ہوئی ہے ان کی روشنی میں پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ خلفائے راشدین کے عہد خلافت میں شعر و شاعری کی تحریک حساس و نشیط تھی اور دوسری بات یہ ہے کہ شعر و ادب کی کتب میں عموماً اسانید کے سلسلہ میں ثقہ راویوں پر اعتماد کا اہتمام نہیں رہا ہے، لیکن چونکہ خلفائے راشدین، صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب ہونے والے ادبی و تنقیدی کلام کا مرجع وہی کتب ہیں اس لیے شعر اور عہد علی رضی اللہ عنہ کے شعراء کے بارے میں معلومات کے لیے ادباء اور شعراء ہی کی کتب مرجع اور مصدر کی حیثیت رکھیں گی اور ان میں اس سلسلہ میں اہم معلومات موجود ہیں البتہ عہد نبوی میں پڑھے جانے والے رجزیہ اشعار جنھیں ثقہ محدثین نے کتب حدیث میں تحریر کیا ہے وہ ان شکوک و شبہات سے مستثنیٰ ہیں۔[3] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا شاعرانہ ذوق اپنے پیش رو خلفائے راشدین سے مختلف نہ تھا، ان سب کا ذوقِ شاعرانہ کتاب اللہ اور سنت رسول سے ہم آہنگ تھا، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کے سامنے شعراء اپنا کلام پڑھتے اور آپ کی حسب خواہش آپ کی صداقت پر مبنی اور بلند معانی کے حامل اشعار سناتے اور اگر کوئی شعر اپنے مطالبہ سے پڑھواتے اور آپ کو پسند آجاتا تو اس پر پڑھنے والے کو داد و دہش سے بھی نوازتے، جیسا کہ اس کی ایک مثال محتاج دیہاتی کے واقعہ میں گزر چکی ہے جب اس نے کہا تھا: کَسَوْتَنِیْ حُلَّۃَ تَبلَی مَحَاسِنُہَا فَسَوْفَ أَکْسُوْکَ مِنْ حُسْنِ الثَّنَا حُلَلًا [4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |