ستون رہی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ مشرکین کا سب سے مشہور بت ’’لات‘‘ تھا، جس کی وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، یہ ’’لات‘‘ وغیرہ دراصل ان نیکوکاروں کے نام تھے جو وفات پاچکے تھے، اور بعد کے لوگوں نے ان سے عقیدت و احترام میں مبالغہ کیا اور اس حد تک مبالغہ کیا کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کے مجسّموں کی عبادت کرنے لگے۔[1] بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عمل توحید کی حمایت کا ایک درخشندہ باب ہے اور اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ آج کے بہت سے مسلمان جو اپنی جہالت و کج روی کی وجہ سے قبروں کی تقدیس وتعظیم، ان کے طواف اور قبروں سے استغاثہ و حاجت برآری کے قائل ہیں یہ سب قطعاً حرام ہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سیرت علی رضی اللہ عنہ کے سراسر خلاف ہیں۔ علمائے ربانی کا یہ فرض ہے کہ اس باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں جس طرح علی رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ لوگوں کو اللہ واحد کی عبادت کا پابند بنائیں اور حکمت و دانائی نیز اپنے مواعظ حسنہ کے ذریعہ سے دعوت الی اللہ کے راستہ میں جو رکاوٹیں پیش آئیں انھیں ہٹاتے جائیں او ران کے دلوں کو اللہ سے جوڑ دیں۔ الف:…قبروں کی زیارت کا شرعی طریقہ: قبروں کی زیارت کے شرعی طریقہ سے بہت سارے لوگ غافل اور ناواقف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں بدعات و خرافات کی کثرت ہے اور علمائے اسلام لوگوں کو قبروں کی زیارت کا شرعی طریقہ نہیں بتاتے یا بتاتے ہیں تو اس کی توضیح اور زیارت قبر کی دعا وغیرہ سکھانے میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں۔ لہٰذا میں اختصار سے بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کی نگاہ میں قبروں کی زیارت کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ زیارت کرنے والا موت کو یاد کرے، اپنی حیثیت اور آخری منزل پر غور کرے اور وہ یہ سوچے کہ آج جس جگہ وہ زیارت کرنے آیا ہے کل اس کے لیے بھی یہی جگہ مسکن و بستر ہوگی۔ جب انسان یہ سوچے گا تو اسے اطاعت الٰہی پر ثابت قدمی میسر ہوگی، وہ اپنی بری خواہشات کو دبائے گا اور لگام دے گا اور پھر اپنے دل کو عبادت الٰہی کی طرف جھکائے گا، خاص طور سے ایسے وقت میں جب کہ اسے عبادت سے تھکاوٹ اور گریز کا احساس ہوگا۔ قبروں کی زیارت کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ مُردوں کے لیے رحمت و مغفرت الٰہی اور سلامتی کی دعا کی جائے، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر بقیع الغرقد کی زیارت کے لیے جاتے اور یہ دعا پڑھتے: ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَومٍ مُّوْمِنِیْنَ، وَ اِنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأَہْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ۔)) ’’اے مومنوں کی بستی کے مکینو! تم پر سلامتی نازل ہو، اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |