Maktaba Wahhabi

1013 - 1201
اطاعت اور ان سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے جو تعبیر اور انداز بیان اختیار کیا اس میں ’’یا مولانا‘‘ کہا۔چنانچہ ریاح الحارث سے روایت ہے کہ گھر کے صحن میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک جماعت ملاقات کرنے چلی آئی، اور کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلَانَا! آپ نے فرمایا: میں تمھارا مولا کیسے ہوسکتا ہوں، جب کہ آپ لوگ عرب قوم ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہم لوگوں نے غدیر خم کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَہٰذَا مَوْلَاہُ)) ریاح کا بیان ہے کہ جب وہ لوگ چلنے لگے تو میں ان کے پیچھے ہولیا اور پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا یہ انصارکے لوگ ہیں ان میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں۔[1] اس حدیث سے سب سے اہم بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خود لفظ ’’مولیٰ‘‘ کو امامت اور امارت کے معنی میں نہیں جانتے تھے، لہٰذا قابل غور ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ان کی ’’یا مولانا‘‘ والی پکار پر اعتراض کیا، آپ جو کہ خالص عربی اور فصیح اللسان تھے، اگر ’’مولانا‘‘ کو ’’امیرنا‘‘ یا ’’امامنا‘‘ کے مترادف جانتے تو ’’مولانا‘‘ کے لفظ سے پکارنے والوں پر ہرگز اعتراض نہ کرتے۔[2] ٭ اثنا عشری شیعہ کے مراجع و مصادر اور بعض اہل بیت کے چند ایسے اقوال نقل کرتے ہیں جن میں غدیر خم کی حدیث سے وفات نبی کے فوراً بعد خلافت علی کی نامزدگی کی تردید کی گئی ہے۔چنانچہ امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما جو کہ اپنے وقت میں آل ابی طالب میں بڑے تھے اور اپنے باپ کے وصی تھے، ان سے کہا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیُّ مَوْلَاہُ))تو آپ نے جواب دیا: ہاں ضرور فرمایا ہے، لیکن اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے امامت اور سلطنت مراد نہیں لیا، اگر آپ کی مرادیہی ہوتی تو آپ ان سے صاف صاف کہہ دیتے۔ اسی طرح آپ کے بیٹے عبداللہ کہتے تھے کہ اس معاملہ (خلافت) میں ہمیں کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہے جو دوسروں کو نہ ملی ہو۔ اہل بیت کا کوئی فرد ایسا امام نہیں ہے جس کی اطاعت اللہ کی طرف سے فرض کی گئی ہو، آپ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے حق میں امارت من جانب اللہ ہونے کی برابر تردید کرتے تھے۔[3] لہٰذا غور کا مقام ہے کہ اگر اہل بیت کا یہ فرمان ہے جب کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور آپ کے حقیقی ہمدرد و غم گسار تھے تو دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا کہیں گے؟ [4] 2۔ تبوک روانگی کے وقت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر اپنا نائب بنانا: غزوۂ تبوک ماہ رجب 9ھ میں پیش آئی، سیرت نبویہ میں اس غزوہ کی بڑی اہمیت رہی ہے، اس غزوہ سے ایسے
Flag Counter