Maktaba Wahhabi

132 - 263
مریم علیہما السلام میں یہ صفت موجود نہیں تھی۔ اس لیے وہ معبود ومستعان نہیں بن سکتے۔هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ یہ عقلی دلیل کا دوسرا حصہ ہے۔ جس میں دوسری شق کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا قادر مطلق ہے کہ ماں کے پیٹ میں اپنے اختیار سے بچے کی صورت گری کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ محترمہ علیہما السلام تو ایسا ہرگز نہیں کرسکتے تھے۔ بلکہ ان کی صورتیں بھی اللہ ہی نے ان کی ماؤں کے رحموں میں بنائی تھیں۔ اس لیے وہ معبود ومستعان نہیں بن سکتے۔ لَا اِلٰهَ اِلَّاهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم۔ یہ دلیل عقلی کا نتیجہ ہے۔ نتیجہ کا بیان صراحت سے فرما کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تقریب تام ہے اور دلیل دعوی کے عین مطابق ہے۔ عیسائیوں کے دلوں میں توحید ورسالت سے متعلق بعض شبہات تھے۔ جنہیں ایک ایک کر کے اس سورت میں دور کیا گیا ہے۔ ان کا پہلا شبہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کے بارے میں روح اللہ، کلمۃ اللہ، ابن اللہ جیسا کہ انجیل میں ہے اور اس قسم کے اور کوئی الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کو اللہ تعالیٰ سے ایک خاص نسبت ہے۔ جس کی بنا پر وہ اللہ کے نائب ہیں اور اللہ نے ان کو غیب دانی اور حاجت روائی کے خصوصی اختیارات دے رکھے ہیں۔ چنانچہ اگلی آیت میں ان کے اسی شبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ [1] حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےمتعلق ابن اللہ اور دعوٰی الوہیت کا بطلان از سعیدی رحمہ اللہ: ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ‘‘[2] یعنی اللہ تعالیٰ کا علم تمام اشیاء کو محیط ہے۔ کی تفسیر میں نصارٰی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی الوہیت پر یہ دلیل قائم کی تھی کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام غیب کی خبریں بیان کرتے تھے‘اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے‘کیونکہ اللہ تعالیٰ زمین وآسمان کا خالق ہے اور خالق کے لیے ضروری ہے کہ اسے اپنی مخلوق کا علم ہو اوریہ بات بداہتاً معلوم ہے کہ عیسٰی علیہ السلام تمام مغبیات کے عالم نہیں تھے اور وہ تمام مغبیات کے کیسے عالم ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ نصارٰی اس بات کے معترف ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو قتل کیاگیا تھا‘پس اگر اُن کوغیب کا علم ہوتا تو وہ ضرور جان لیتے کہ ان کی قوم اُن کو قتل کرنے کا ارادہ کر رہی ہے تو وہ اُن کے پہنچنے سے پہلےان کے پاس سے بھاگ جاتے۔اسی طرح اگلی آیت’’ هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ‘‘[3]میں لکھتے ہیں:یعنی وہی تمہیں ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہتے ہیں صورت عطا فرماتے ہیں۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس عقیدہ کا رد فرمایا ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے پر دلیل قائم کرتے تھے کہ عیسٰی علیہ السلام مُردوں کو زندہ کرتے ہیں‘اللہ تعالیٰ نے اُن کا رد فرمایا کہ بعض صورتوں میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینا اُن کے خدا ہونے کو مستلزم نہیں ہے‘کیونکہ اللہ تعالیٰ ماؤں کے پیٹوں میں ایک حقیرقطرہ کو
Flag Counter