قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣﴾ (الانعام:33) ’’بے شک ہم جانتے ہیں کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ یقینا تجھے وہ بات غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں، تو بے شک وہ تجھے نہیں جھٹلاتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات ہی کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ ٭ آغاز ہجرت کے یہ نازک ترین لمحات، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اضطراب و گھبراہٹ لاحق ہونی چاہیے تھی اور آپ کو صرف ایک ہی فکر ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ کس طرح ہجرت کے منصوبہ کو کامیاب بنایا جائے، ایسے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے پاس جن لوگوں کی امانتیں ہیں انھیں ان تک پہنچا دو، آپ بھولے نہیں اور نہ ہی غافل ہوئے، جب کہ اس طرح کے سخت ترین حالات میں انسان اپنے وجود ہی کو بھول جاتا ہے چہ جائیکہ کچھ اوریاد رکھے۔[1] بہرحال آپ کی فطرت نے اس بات سے انکار کیا کہ کسی امانت رکھنے والے کی امانت میں خیانت کریں، خواہ وہ آپ کے خلاف دشمنوں کو بھڑکاتا اور تکلیف ہی کیوں نہ دیتا ہو، اس لیے کہ امانت میں خیانت کرنا منافقین کی صفت ہے، جس سے مومن پاک صاف ہوتا ہے۔[2] ٭ ہجرت کے اس عظیم و بے مثال واقعہ سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی جرأت و شجاعت ظاہر ہوتی ہے کہ حکم نبوی کی تعمیل میں آپ جو کام انجام دینے جارہے تھے جس کے بارے میں آپ کو معلوم تھا کہ میں ایک بڑا خطرہ مول لینے جارہا ہوں، نبی کے دشمن آپ کے گھر پر ایک ساتھ اور اچانک دھاوا بولیں گے او ربلا کسی تحقیق کے آپ کو قتل کردیں گے اوریہ بھی ممکن ہے کہ رات کو چھوڑ کر صبح کے وقت گھر سے نکلتے ہوئے اچانک وہ سب آپ پر حملہ کردیں اور اس بات کی قطعاً پروا نہ کریں کہ گھر سے کون نکل رہا ہے، یہ سب کچھ اس لیے ہوسکتاتھا کہ پوری رات وہ لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوں گے اور اس گھڑی کا انتظار کر رہے ہوں گے اور ہر تدبیر اور پوری کوشش کے باوجود صبح کے اندھیرے میں گھر سے نکلنے والے کو اچھی طرح نہیں پہچان سکیں گے کہ یہ کون ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یا کوئی اور۔ یقینا یہ سب باتیں علی رضی اللہ عنہ کے ذہن میں گردش کرتی رہی ہوں گی، لیکن آپ نے حکم نبوی کی تعمیل میں سبقت کرکے سعادت مندی کو گلے لگایا اوریہ ثابت کردیا کہ: ٭ آپ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرتے ہیں، ایسی محبت کہ جس پر دل سے فدا ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بقاء و سلامتی کو ایسا بلند ترین مقصد قرار دیتے ہیں کہ جس کے پیچھے اپنی زندگی کی قربانی دینا گوارا کرلیتے ہیں۔ ٭ دشمنوں کے چنگل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باسلامت نکال لینے کے لیے یہ ساری تدابیر ضروری تھیں تاکہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |