Maktaba Wahhabi

134 - 263
ہے۔ وہ الٰہ نہیں بن سکتا۔ نیز وہ اللہ کا رسول تھا جس کا کام ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو توحید سکھائے اور شرک سے ان کو روکے۔ اسی طرح ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر گزرے ان سب کا یہی کام تھا۔ لہذا جو لوگ خود دوسروں کو شرک سے منع کریں وہ کس طرح خدا کے شریک ہو سکتے ہیں۔ حضرت مسیح ابن مریم کی رسالت اور ان کی عبدیت کا ثبوت از سعیدی رحمہ اللہ: ’’مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ‘‘[1]اس آیت میں عیسائیوں کے دونوں فرقوں کے خلاف دلیل ہے‘اُن میں سے ایک فرقہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے رسول ہونے کا منکر تھا اور دوسرا فرقہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے لیے ربوبیت اور الوہیت کا دعوے دار تھا‘پس اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا:بے شک عیسٰی مریم کے بیٹے ہیں اور مریم کا بیٹا اس کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ اللہ ہو یا اللہ کا بیٹا ہو۔[2] تجزیہ: اللہ رب العزت نے اپنی وحدانیت کو بیان کرنے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے بہت سے انبیاء کو مبعوث فرمایا اور ہر نبی نے اپنے دورمیں اللہ کی وحدانیت کا پیغام عام کیا اور انبیاء کے بعد علماء نے بھی اللہ کی توحید کا ڈنکا بجایا‘اسی طرح مولانا الوانی رحمہ اللہ اور مولانا سعیدی رحمہ اللہ نے بھی وحدانیت الٰہ کو بیان کیا ہے اور دونوں مصنفین نے یہی کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف اور صرف اللہ کے رسول ہیں یعنی خدا کے قاصد ہیں اور قاصد نائب تو ہو سکتا ہے مگر اصل نہیں ہوسکتااورقرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں’’مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ‘‘[3]کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو مریم کے بیٹے تھے اور جو اپنے پیدائش میں یا اپنے وجود کےظہور میں دوسروں کا محتاج ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ 3۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ’’ابن اللہ‘‘ ہونے کا رداز الوانی رحمہ اللہ: ’’ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ‘‘[4] اور مسیح(علیہ السلام)کی والدہ صدیقہ تھیں، صدیقیت ولایت کا سب سے اونچا درجہ ہے جو اللہ کی خالص عبادت اور کامل اطاعت سے حاصل ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت مریم تو خود اللہ کی عبادت گذار تھیں اس لیے وہ معبود بننے کے لائق ہرگز نہیں ہوسکتیں۔اور ’’ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ‘‘[5] تثنیہ سے مراد حضرت مسیح اور حضرت مریم علیہما السلام ہیں۔ اس میں ان کے انتہائی احتیاج کا بیان ہے اور ان کی الوہیت کی نفی پر ایک واضح برہان ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ
Flag Counter